محمد عدنان فدا سعیدی

وکیپیڈیا توں

ناں... محمد عدنان فدا سعیدی

ولدیت.. فداحسین مصطفائی

جمنڑاں...شب برات بمطابق 4 دسمبر 1998

(جتوئی شہر )

تعلیم... ایم اے اردو

ایم اے اسلامیات _________________________ اردو تے سرائیکی افسانہ نگار اردو افسانے دے نمونے

اپنا بندہ

افسانہ نگار: عدنان فدا سعیدی

بیڈ نمبر چار پہ لیٹے ہوئے ساجد

کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پاس کھڑی نرس سے ڈاکٹر رمیز نے کہا اس کا خیال رکھنا اپنا بندہ ہے۔

سکارف درست کرتے ہوئے نرس نے بھی جی سر کا گولہ پھینکنے میں قطعاً دیر نہ کی۔

گردوں کی تکلیف میں مبتلا ساجد  اپنے حصے کی باقی سانسیں لے رہا تھا ۔اتنے میں ساجد کے بیڈ کے قریب ہی نمبر تین پر لیٹے معمر مریض کے کانپتے ہونٹوں سے نکلے الفاظ لہروں کے دوش پہ سوار ساجد کے کانوں سے ٹکرائے۔ بیٹا تو بڑا خوش قسمت ہے تیرے خیال رکھنے کا ڈاکٹر صاحب نرس کو کہہ کے جارہا ہے ورنہ یہاں تو اپنے ہی گھر والے تسلی دینے نہیں آتے بس بیٹا آیا ضروری سامان اور دوائیوں کا انتظام کیا چلا گیا۔ ساجد نے یہ سنا تو مسکرا کر معمر شخص کو دیکھا اور کہا مجھے اپنا بیٹا سمجھ لیں میں آپ کے ساتھ یہاں جب تک ہوں بیٹے کی کمی محسوس نہ ہونے دوں گا۔

شہر کے سب سے بڑے نجی ہسپتال میں موجود یہ دونوں مریض گردوں کی تکلیف میں مبتلاء اپنی زندگی کے تکلیف دہ حصے میں ایک دوسرے کو تسلی دینے کی کوشش میں تھے ۔ یقیناً یہ تسلی ویسی نا تھی جیسے ڈاکٹر رمیز نے اپنا بندہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کی تھی ۔ شاید یہ تسلیاں روزانہ کئی مریضوں کے حصے میں آتی رہتی ہیں ۔ ڈاکٹر رمیز کے پاس جب ساجد کو لایا گیا اور بیماری کے بارے میں بات ہوتی ہوتی گھر کے پتہ تک جا پہنچی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر رمیز اسی محلے میں پیدا ہوئے تھے جہاں ساجد کا گھر ہے ۔ بعد ازاں تعلیم مکمل کرنے کے لیے شہر آگئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ساجد کو ہم محلہ پا کر ڈاکٹر رمیز نے سب سے پہلے تو مشروب منگوایا اور بعد ازاں یہ کہہ کر ایک ہزار روپے مشورہ فیس کے واپس کردیے کہ آخر ہم ایک ہی محلے میں پیدا ہوئے ہمسائیگی کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ اور پھر میٹھے لہجے میں کہا بھئی آپ تو اپنے بندے ہیں آپ سے کیا مشورہ فیس لینی ۔ ہاں ذرا یہ ٹیسٹ لکھ کے دے رہا ہوں یہ کرالیجیے گا تاکہ بیماری کی مکمل تشخیص ہو جائے ۔ ساتھ ہی ٹیسٹ تجویز کرتے ہوئے لیبارٹری کا نام بھی بتایا اور اپنا نام بھی لکھ دیا کہ یہ دکھا دیجیے گا ۔ساجد اپنے چھوٹے بھائی امجد کے ساتھ اس لیبارٹری کی طرف گیا اور تجویز کردہ ٹیسٹ کروائے۔ فیس ادا کرنے کی باری جھٹکا سا لگا کہ باقی لوگوں کی نسبت پانچ سو روپے زائد لیے جارہے ہیں۔اور ایسے تین چار ٹیسٹ کرانے کی تجویز دی گئی تھی۔خیر یہ سوچ کر فیس ادا کردی گئی کہ ڈاکٹر صاحب نے بڑی تعریف کی اچھی لیبارٹری ہے تسلی بخش کام ہوتا ہے۔ٹیسٹ رپورٹ لے چکے تو ڈاکٹر رمیز کے پاس چیک کرانے آگئے ۔ مرض کی مکمل تشخیص کے بعد ڈاکٹر صاحب نے علاج شروع کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے لمبی سی فہرست میڈیکل سٹور والوں سے مستفید ہونے کے لیے امجد کے ہاتھ میں تھمائی اور جلدی سے مطلوبہ میڈیسن لانے کا کہا ۔ میڈیکل سٹور پر پہنچتے ہی امجد متعجب ہوا کہ دس فیصد ڈسکاؤنٹ کے باوجود بھی سات ہزار روپے کا بل میڈیسن کی مد میں وصول کرلیا گیا امجد نے ناک بھوں چڑھاتے میڈیکل سٹور پر موجود نوعمر لڑکے سے پوچھا : دوائی کچھ زیادہ ہی مہنگی دی جارہی ہے ؟ جواب ملا : نہ بھئی میں نے تو دس فیصد ڈسکاؤنٹ بھی دیا ہے مہنگی کہاں بھلا۔ امجد نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو معلوم ہوا آخری چند ہزار رہ گئے تھے اب اگر ہسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تو رقم کا انتظام مشکل ہو جائے گا۔ مفلسی ہی بیماریاں لاتی ہے پہلے بھوک کم تھی کہ اب اس آزمائش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔بوجھل قدموں کے ساتھ دوائی کا شاپر آ کر ڈاکٹر رمیز کی میز پہ رکھا انہوں نے تسلی سے دیکھا اور نرس کو بلا کر ساجد کو بیڈ پر منتقل کرنے کا کہتے ہوئے خود گھر کی جانب روانہ ہوا۔ جتنے روز یہاں ساجد موجود رہا روزانہ میڈیکل سٹور سے مختلف ادویات منگوائی جاتی رہیں گاہے بگاہے صحت میں بہتری آئی یا نہیں اس کی تسلی کے لیے ٹیسٹ بھی تجویز کیے جاتے رہے۔ بعض اوقات تو بوڑھے میاں کہتے کہ یہ میڈیکل بھی عجیب شعبہ ہے نا اگر ٹیسٹ ہی کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری کیا ہے تو پھر مشورہ فیس کیسی؟ پھر یہ ہسپتالوں میں بڑے بڑے ڈاکٹر کیوں تعینات کیے گئے اگر بیماری کی تشخیص ہی نہیں کر پاتے تو تنخواہ یا فیس کس چیز کے لیتے ہیں؟ ادھر علاج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے امجد نے رشتہ داروں اور احباب سے قرض حسنہ کی اپیل کی۔کسی نے امداد کے نام پہ چند ہزار روپے دیے اور واپسی کا تقاضا نہ کیا تو کسی نے جلد لوٹائے جانے کے وعدہ پر رقم دینے کی حامی بھری۔ غریب بندے سے تھانہ کچہری ہو یا ہسپتال ایک ایک اینٹ پیسے کا مطالبہ کرتی ہے۔ کہیں ٹیسٹ رپورٹ تو کہیں ادویات سے لدے پھندے شاپر بیگ لمحہ بہ لمحہ جیب پہ بھاری پڑتے ہیں۔ ساجد کے ساتھ بیڈ نمبر تین پہ موجود معمر شخص بھی کچھ ایسے ہی حالات سے گزر رہا تھا ساجد کو تکلیف میں دیکھ کر یوں محسوس کرتا جیسے اپنا بیٹا تکلیف میں مبتلا ہے۔ ایک دن پوچھنے لگا بیٹا کام کیا کرتے ہو ساجد نے جواب دیا بس بابا جی محنت مزدوری اور کیا۔ ہاں چھوٹا بھائی ایک پرائیویٹ ادارے کے دفتر میں ملازم ہے جو کچھ معاوضہ ملتا ہے گھر کا راشن بھی مشکل سے پورا ہوتا ہے لیکن کیا کریں زندگی ہے ماں تو نہیں کہ تکلیف پہنچائے بغیر احساس دلائے بغیر ہر چیز مہیا کردے ۔ بوڑھے میاں نے سرد آہ کے ساتھ تائیدی نظروں سے دیکھا اور کہا ہاں بیٹا والدین کے علاوہ کوئی احساس نہیں کرتا بس سب کے زبانی دعوے ہی ہوتے ہیں۔اچھا بیٹا یہ فروٹ اٹھا لے ویسے بھی مجھ سے کچھ کھایا نہیں جاتا آخر تو بیٹے جیسا ہے تو کھائے گا تو خوشی ہوگی اور ہاں پریشان نہ ہو آج میں اپنے بیٹے سے کہوں گا میری دوائی کے ساتھ تیری دوائی بھی لیتا آئے گا۔ بوڑھے میاں کی باتوں نے عملی جامہ پہنا بیماری نے ان دونوں کا برا حال کررکھا تھا آخرکار بیماری سے لڑتے لڑتے ساجد نے کچھ روز بعد ہی علی الصبح جان مالک حقیقی کے سپرد کی۔ بیڈ نمبر چار کو خالی کرانے کا وقت آ پہنچا تھا نرس نے ڈاکٹر رمیز کو فون کرکے صورتحال سے آگاہ کیا کہ بیڈ نمبر چار کا مریض وفات پاچکا ہے ان کا بل ابھی تک کسی نے ادا نہیں کیا ایڈمن کا کہنا ہے جب تک پوری رقم کی ادائیگی نہ ہوگی نعش کو ورثاء کے حوالے نہ کیا جائے گا۔ ڈاکٹر رمیز نے کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ جب بل کی ادائیگی کرلیں مجھے بتائیے گا میں ذرا فیملی کے ساتھ باہر گیا ہوا ہوں۔ امجد کے ہاتھوں میں ہسپتال کا بل اور سامنے بڑے بھائی کی نعش یہ سب کسی قیامت کے منظر سے کم نہ تھا۔ بیڈ نمبر تین کے بوڑھے میاں نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے آنسو پونچھنے کی ناکام کوشش کے بعد اپنی قمیض کی جیبوں کو ٹٹولا کہیں کونے کھدرے میں تین ہزار روپے کسی ویرانے میں پڑے بوسیدہ اوراق کی طرح لپٹے ہوئے ملے اور جھٹ سے وہ امجد کے ہاتھوں میں پہنچا دیے اب بقیہ رقم کا انتظام بیچارہ کہاں سے کرتا کئی احباب سے بات کی گئی جواب میں سوائے تعزیت کے کچھ نہ ملا۔آخرکار ایک قریبی عزیز نے مطلوبہ رقم کا بندوبست کردیا تاکہ جلد از جلد نعش ورثاء کے حوالے کی جائے اور تجہیز و تکفین کا عمل مکمل ہو سکے۔بیڈ نمبر چار کے مریض کا بل ادا کیا جا چکا تو نرس نے دوبارہ ڈاکٹر رمیز کو اطلاع دی کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر صاحب کار پارک کرتے ہوئے فوراً بیڈ نمبر چار کی طرف آئے دیکھا کہ میت ورثاء کے حوالے کی جارہی ہے اور امجد آنسوؤں سے تر چہرہ لیے خارجی دروازے کے پاس کھڑا ایمبولینس والے سے بات کررہا ہے ۔ ڈاکٹر رمیز سے رہا نہ گیا جاکر امجد کو سینے لگایا تعزیتی جملے ادا کیے اور ایمبولینس والے سے یہ کہہ کر واپس اپنے روم کی طرف چل دیئے کہ دھیان رکھیے گا اپنا بندہ ہے۔۔۔۔۔۔۔


__________________________________ نفع افسانہ نگار:-عدنان فدا سعیدی

بڑا نفع ہے جی اس میں دنیا جہان کی برکت ہے زم زم کا اپنا ہی سواد ہے پھر عجوہ کھجور تو دلوں کی بیماریاں دور کرنی والی ہے ۔یہ میٹھے بول بولنے والی زبان کسی اور کی نہیں بلکہ حاجی مہر خان کی تھی جس نے مبارک باد دینے کے لیے آنے والے مہمانوں کو بڑے چاہ سے حجاز مقدس کے تبرکات سے نوازتے ہوئے خاطر مدارت کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ۔ ابھی گزشتہ روز ہی حاجی مہر خان اپنے پورے خاندان کے ساتھ حج اکبر کی سعادت حاصل کرکے وطن واپس آیا تھا ۔ مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا ہر سال ایسا ہی تو ہوتا تھا جب عمرہ کی ادائیگی کے بعد حاجی مہر خان سے ملنے والے دوست و احباب کی قطاریں لگی رہتی تھیں ۔ کل ملا کر اسی برس کی عمر ہوچکی تھی جب سے نفع پر پیسے دینے شروع کیے تھے مجال ہے کہ پھر کوئی سال ایسا گزرا ہو کہ حاجی صاحب عمرہ کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس نہ گئے ہوں ۔ اس مبارک عمل کو رحمت ایزدی سے منسوب کیا کرتے تھے۔ پچھلے برس تو جب ایک دیہاڑی دار مزدور قادر بخش نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے حاجی صاحب سے پیسے اٹھائے تھے تو بات ایک ہزار روپیہ پر ایک سو روپیہ یومیہ نفع پر طے ہوئی ۔حاجی صاحب کے لہجے کی نرمی نے قادر بخش کا دل موہ لیا جب حاجی صاحب نے پچاس ہزار روپے اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ قادر بخش یہ نہ سمجھنا کہ زینت صرف تیری بیٹی ہے وہ تو میری بیٹی کی طرح ہے ہیں نا بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں ۔ جا بیٹی کے ہاتھ پیلے کر اور ہاں یہ بڑا نفع والا عمل ہے جی اس میں دنیا آخرت کی بھلائی ہے ۔ قادر بخش نے پچاس ہزار روپے اٹھائے اور دھیرے سے شکریہ ادا کرنے لگا کہ حاجی صاحب آپ کی مہربانی ہے آپ نے غریب کی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے قرض دیا۔ حاجی صاحب کی آنکھیں پھرنے لگیں کہا کہ قرض کیسا قرض ؟ مفلوک الحال قادر بخش نے ہاتھوں میں موجود رقم کی طرف اشارہ کیا۔ حاجی صاحب نے اپنی سفید داڑھی کے بالوں میں انگلی پھیرتے ہوئے مسکراتا چہرہ قادر بخش کے سامنے کیا اور کہا قادر بخش یہ تھوڑے سے نفع پر دیے ہیں بس تیری بیٹی کی شادی ہے ورنہ میں نفع پر پیسے نہیں دیا کرتا ہوں لے جا ان کو اور بیٹی کا فرض ادا کر لے جا ۔ قادر بخش تشکر آمیز نگاہوں سے سفید ریش حاجی مہر خان کو دیکھتے ہوئے خدا حافظ کہتا چلا گیا۔ حاجی صاحب بھی آذان کی آواز سن کر نماز عصر کی ادائیگی کے لیے مسجد کی طرف چل دیئے۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا کوئی بھی نماز قضاء نہیں ہونے دی اور نہ ہی کوئی روزہ جان بوجھ کر قضاء کیا تھا ۔ پانچ فرض نمازوں کے علاؤہ نوافل کی ادائیگی میں بھی حاجی مہر خان کوتاہی نہ برتتے تھے ۔ چونکہ بلا ناغہ نمازِ عشاء کے بعد گھر میں وی سی آر پر نئی نویلی فلم سے محظوظ ہوا کرتے تھے تو شاید تہجد کی نماز رہ جاتی ہو۔ بہرحال یہ بندے اور رب کا معاملہ تھا حاجی مہر خان کی کوشش ہوتی تھی کہ لباس اور سیرت و صورت اسلامی روایات کا آئینہ دار نظر آئے۔دن کو نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نفع پر رقم کی ادائیگی میں بھی کوتاہی نہ برتتے تھے ۔ دولت کدہ پر آنے والے ضرورت مند مجبور اور بیکسوں کو اگر نفع پر رقم چاہیے ہوتی تھی تو حاجی صاحب کے دل کا خانہ اور تجوری کا خانہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا تھا۔ منشی سے صرف اتنا پرکھنے کو کہتے کہ دیکھنا اگر یہ رقم لوٹانے کی حالت میں نہ ہوا تو اس کے حصہ کی زمین اتنا تو ہو کہ اس سے نفع سمیت رقم پوری کی جاسکے۔ رقم دینے کے بعد منشی سے سختی سے کہہ دیا جاتا کہ خبردار ایک روپیہ بھی زیادہ یا کم لکھا تو یہ گناہ تیرے سر ہوگا ۔ مخلوق خدا کے لیے سہولت پیدا کرنی چاہیے نہ کہ تنگی لہٰذا احتیاط کیجیو جتنی رقم دی جائے پوری پوری لکھنا۔ کئی ایسے مجبور ضرورت مند حاجی صاحب کے پاس آتے اور بامراد لوٹتے تھے ۔ فایدہ یہ ہوا کہ حاجی مہر خان کا بینک بیلنس ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں روپے میں جلد ہی پہنچا جسے حاجی صاحب فضل ربی گردانتے رہے ۔کئی مزدور اس در پہ نفع کی رقم ادا کرتے کرتے اپنی زمینیں ہار بیٹھے ۔ بیسیوں نے اپنی بیویوں بیٹیوں کے کان چیرے اور حاجی صاحب کو نفع کی رقم کے بدلے دگنی رقم کے گہنے عطا کرگئے۔ہر سال حاجی صاحب عمرہ پہ روانگی سے قبل سب متعلقین سے نفع سمیت مکمل رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے پھر نفع بخش عمل کے لیے حجاز مقدس روانہ ہوتے ۔ ان بدنصیبوں میں قادر بخش بھی شامل تھا بیٹی کی شادی کے چند روز بعد ہی قادر بخش نے تیس ہزار رقم حاجی صاحب کے ہاتھ میں تھما دی۔ حاجی صاحب نے غور سے قادر بخش کو دیکھا اور گویا ہوا کہ قادر بخش تو نے یہ رقم لوٹانے میں اتنا جلدی کیوں کی کیا نفع سے ڈر گیا تھا ؟ قادر بخش نے لجاجت سے کہا نہ حاجی صاحب نہ لوگ تو اسے سود پرافٹ کا نام دیتے ہیں میں تو اسے نفع بھی نہیں سمجھتا یہ تو آپ کی مہربانی ہے آپ نے غریبوں کے بھلے کے لیے قرض دینے کا کام شروع کررکھا ہے بس یہ پیسے شادی کے خرچے میں سے بچ گئے سوچا دے آوں باقی کے پہنچا دوں گا ۔ حاجی صاحب نے سود پرافٹ کے گھٹیا الفاظ کی نفی والے خوبصورت جملے سنے تو دل باغ باغ ہوگیا منشی سے بولے ۔ جانا ذرا دودھ پتی لے آنا قادر بخش بڑا سیانا بندہ ہے خدمت کر اس کی جلدی جا خود ہی چائے لے کے آنا۔ منشی جانے لگا تھا کہ حاجی صاحب نے روکا جیسے کچھ یاد آگیا ہو ۔ ہاں وہ خطائی والے سے تازہ خطائی بھی لیتے آئیو ۔ قادر بخش اس عزت افزائی کے بعد گھر گیا تو جیسے حاجی صاحب سے یارانہ کی سند ساتھ لیے جارہا ہو۔ دو ماہ گزر گئے حاجی صاحب کے پاس قادر بخش آیا نہ ہی نفع کا دھیلا ۔ حاجی صاحب نے منشی کو دوڑایا اور کہا قادر بخش کو بلا آئیو ۔ منشی دروازے پر دستک دینے ہی والا تھا کہ کواڑ کھلا اور قادر بخش کی بیٹی زینت کے کان میں سجے خوبصورت جھمکے منشی کی آنکھوں کو خیرہ کرگئے ۔ منشی نے ہکلاتے ہوئے کہا۔ ووو وہ قادر بخش کککککو ذراااا ذرا بلانا تھا حاجی صاحب یاد کررہے ہیں۔ زینت نے پیغام سنا تو سر جھکائے کمرے میں چلی گئی اور چند لمحوں میں قادر بخش پرانی چادر کاندھوں پہ سجائے سامنے آموجود ہوا۔ منشی نے قادر بخش کو ساتھ لیا اور حاجی صاحب کے دولت کدہ پر جا پہنچا۔ حاجی صاحب نے قادر بخش سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیوں میاں پیسے نہیں لوٹانے کیا نہ ہی رقم دے گئے نہ ہی نفع قادر بخش سر جھکائے کھڑا کہنے لگا نہیں حاجی صاحب اب اتنی رقم اتنا جلدی نہ ہوسکے گی جب مسلسل دیہاڑی لگے گی لوٹا دوں گا۔ یہ سنتے ہی حاجی مہر خان کے چہرے پہ سرخی جھلکنے لگی آگ بگولہ ہوکر قادر بخش کو کھری کھری سنوا دیں اور جیسے تیسے آج ہی رقم مع نغع لوٹانے کا حکم صادر کردیا ۔ قادر بخش نے لجاجت سے کہا آج تو ناممکن ہے کیسے انتظام کرسکوں گا۔ کچھ دن کی مہلت دیجیے تاکہ رقم لوٹانے کا بندوبست کرسکوں ۔حاجی صاحب نے آج کے دن میں ہی کھاتہ کلیئر کرنے کا حکم جاری کیا ورنہ سر بازار عزت افزائی کی خوش خبری سنائی۔ قادر بخش بوجھل قدموں کے ساتھ گھر لوٹا اور کچھ دیر بعد حاجی صاحب کے سامنے آموجود ہوا ہاتھ میں جھمکے تھے جن کی قیمت اگرچہ کم تھی لیکن قادر بخش کے کانپتے ہاتھ بتا رہے تھے کہ مجھ غریب کے لیے یہ کل کائنات کا سرمایہ ہے حاجی صاحب نے جھمکے منشی کو دیتے ہوئے کہا جاؤ سنار سے اس کی قیمت پتہ کرو آج ہی میں نے پاسپورٹ جمع کرانے جانا ہے عمرہ کی ادائیگی بڑا برکت والا عمل ہے بڑا نفع والا عمل ہے________ _________________________________

__________________________________ افسانہ غریبوں کی خدمت

افسانہ نگار: عدنان فدا سعیدی

ہم تو پیدا ہی غریبوں کی خدمت کے لیے ہوئے ہیں ۔ چمکتی آنکھوں کے ساتھ چوہدری نے یہ کہتے ہوئے جمن کے سر کو اپنے قدموں سے اٹھایا اور اسے سامنے لا کھڑا کیا۔ اللّٰہ جانے یہ جملہ کتنے دکھوں کا علاج تھا ۔ ایک ماہ ہوگیا تھا زخموں پہ مرہم رکھنے والا کوئی نہ ملا تھا سوائے اس چوہدری کے کہ جس کے سائے میں کئی غریبوں کا گھر اجاڑنے والے درندے ہروقت موجود رہتے تھے۔۔پھر غمزدہ جمن کے زخم کب بھرنے والے تھے ساری زندگی جس نے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے میں وقف کردی ہو ۔ بڑی مشکل سے اکلوتی بیٹی عاشو کا رشتہ طے ہوا تھا ۔ بھلا کس کو پڑی ہے کہ غریبوں سے رشتہ داری جوڑتا پھرے مادہ پرستی کے دور میں کس نے کچی دیواروں کے سائے میں رہنے والے مفلوک الحال شخص سے رشتہ استوار کرنا تھا ۔ جمن کی بیوی جمیلہ نے کئی بار شہر کے چکر لگائے اور برسوں سے ناراض اپنی بڑی بہن سکینہ سے ملتی رہی اور بڑی مشکل سے راضی کیا کہ سکینہ اپنے منجھلے بیٹے کے لیے میری اکلوتی بیٹی عاشو کا ہاتھ مانگنے جمن کے پاس آئے ۔ ناک بھوں چڑھا کر سکینہ اپنے بہنوئی جمن کے پاس آ تو گئی لیکن اس کی مفلسی سے خوف کھا رہی تھی جیسے صرف عاشو اکیلی ہی گھر نہیں آئے گی بلکہ جہیز میں بھوک افلاس کا تحفہ بھی ساتھ لائے گی ۔ جمن نے بیوی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا جیسے کئی برس بعد اس شکستہ مکان میں آنے والی سکینہ کے آنے کی وجہ جاننا چاہ رہا ہو۔ اس سے قبل کہ جمیلہ کچھ بولتی عاشو کی آواز آئی لیں ماسی چائے بنا لائی ہوں آپ کے لیے ۔ سکینہ نے اچٹتی نظر چائے کا پیالہ تھامے غربت و افلاس کی تصویر پر ڈالی تو چہرے پر کئی رنگ آ کر رہ گئے ۔ پرانے پیوند لگے کپڑوں میں ملبوس اس پری وش کا پیکر جیسے امراء کی پارلر میں تیار ہونے والی بیبیوں کا منہ چڑا رہا ہو کہ چاند اگرچہ گرہن کا شکار ہو لیکن رہتا چاند ہی ہے ۔ حسین و جمیل عاشو کو برسوں بعد دیکھنے والی اس کی خالہ سکینہ نے اپنے بیٹے کی رفیقہ حیات بنانے کے لیے فیصلے میں دیر صرف اس لیے کردی کہ غربت کے مارے جمن کے پاس کیا رکھا ہے جو عاشو کے ہاتھ پیلے کرتے جہیز میں دے گا ۔ سکینہ کا منجھلا بیٹا شوکت اگر جوئے کی لت میں نہ پڑا ہوتا اور باپ کے ساتھ کوئلے کے کاروبار میں شریک ہوا ہوتا تو آج سکینہ کو اس مفلوک الحال جمن سے رشتہ جوڑنے بھی نہ آنا پڑتا ۔ غربت بھی تو وہاں رشتے قائم کرنے پر مجبور کرتی ہے جہاں معاشرے کے شریف لوگ اپنی بیٹیاں دینے میں عار محسوس کرتے ہیں ۔ جمن بھی ان بدقسمت لوگوں کی فہرست میں شامل تھا جن کی بیٹیاں اگر جواری اور شرابی سے بھی بیاہ دینے کا کہا جائے تو اور کوئی چارہ نہیں رہتا یہ سوچ کر کہ شادی کے بعد ذمہ داری کا احساس ہوگا برے کام چھوڑ کر گھر بسائے گا ۔ آخرکار سکینہ نے منہ پھلائے جمن سے رشتہ کی بات کردی اور یہ سنتے ہی جیسے جمن کی آنکھوں میں چمک سی آگئی ہو جمیلہ کی طرف اشارہ کردیا کہ بہنیں راضی ہوں تو مجھے اعتراض نہیں ۔ رشتہ طے ہوا شادی کی تاریخ کی بات چل نکلی لیکن معاشرے میں جہیز کی لعنت نے جیسے کئی گھر اجاڑے کئی بالوں میں چاندی کا تحفہ سجادیا بالکل اسی طرح جمن کا گھر نشانے پہ تھا ۔ بات چلی کہ بیٹی کو جہیز میں کیا دے رہا ہے جمن نے ساری زندگی کمایا ہی کیا تھا غریب کو ایک وقت کی روٹی میسر آئی تو دوسرے وقت کی روٹی کے لیے دوڑ پڑے ساری زندگی روٹی کمانے میں گزری۔ سوائے ایک بیل کے ان کچی دیواروں کے سائے میں اور کچھ موجود نہ تھا ۔ اس بیل کو جمن نے بیٹے کی طرح پالا تھا ۔ دل پہ پتھر رکھتے ہوئے بیل بیچنے کا فیصلہ ہوا تاکہ عاشو کی شادی کے لیے کچھ رقم جوڑی جاسکی کچھ جہیز کا سامان خریدا جاسکے۔پورے گاؤں میں بیل کی اچھی قیمت دینے والا صرف ایک ہی تھا اور وہ جو گاؤں گا کرتا دھرتا گاؤں کا چوہدری جس کی ہاں ناں پر فیصلے ختم ہوتے تھے ۔ جمن نے صبح سویرے ہی نہ چاہتے ہوئے بھی بیل کی رسی کھولی اور کچھ ہی دیر میں بیل کے ساتھ چوہدری کے ڈیرے پر آپہنچا ۔ پگڑی درست کرتے چوہدری نے غور سے جمن کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں محسوس کیں اور کڑکتی آواز میں بولا:- جمن کس کا بیل پکڑ کے لائے ہو؟

آنکھوں میں بحر غم لیے مفلسی کے شکستہ پیکر جمن نے چوہدری کے سامنے دست بستہ ہوکر کہا:-   مائی باپ بیچنے آیا ہوں میرا اپنا ہی بیل ہے بیٹوں کی طرح پرورش کی ہے اس کی اب عاشو کی شادی کے لیے کچھ پیسے جوڑنے کا سوچا تو بس سارے گھر میں ایک یہی وسیلہ نظر آیا ۔ چوہدری نے  بڑے غور سے اس خوبصورت بیل  کو دیکھا اور جمن سے کہا بیس ہزار میں بیچو گے ؟ یہ سنتے ہی جیسے جمن کے دل پہ بجلی گری ہو کہ بیٹے کو بیچ رہا ہوں اور قیمت لگائی گئی بیس ہزار سر اٹھاتے  ہوئے جمن نے کہا:-
 نہ چوہدری صاحب یہ بہت کم رقم ہے۔ میں نے تین سال اس کو بچوں کی طرح پالا ہے اور آپ اس کی قیمت صرف بیس ہزار کہہ رہے ہیں ۔
چوہدری صاحب نے اس جملے اور جمن کے اٹھے ہوئے سر  کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے جمن کو دفع ہوجانے والی نظروں سے اشارہ کیا اور خود پگڑی درست کرتے ہوئے کھیتوں کی طرف چل دیا ۔ جمن نے شہر جاکر مویشی منڈی میں  بیل کی بولی لگوائی اور ایک لاکھ میں بیچ کر خوشی خوشی گھر آگیا۔ گھر میں خوشی کا سماں شادی کے دن قریب آتے گئے جمن نے بیوی کو عاشو کے جہیز کا سامان جوڑنے کے لیے پیسے دیے اگلے ہی دن گاؤں کی کچی سڑک پر چلتی بیل گاڑی میں خوبصورت چارپائی  کے اوپر رکھی  جہیز کے سامان کی گٹھڑیاں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنیں ۔ جمن کے آنگن میں چند لمحوں کے لیے خوشیوں نے جھلک دکھائی ۔ غریبوں کی خوشیاں بھی چراغ کی اس لو کی طرح ہوتی ہیں جس کی چند سانسیں باقی رہ گئی ہوں ۔ تین روز بعد عاشو کی رخصتی تھی جمن نے صرف بیل ہی نہ بیچا بلکہ جتنے دوستوں سے ادھار مانگ سکتا تھا مانگ لیا تاکہ عاشو کو سسرال میں کوئی یہ طعنہ نہ دے کہ مفلوک الحال جمن کی بیٹی کے نصیب بھی مفلسی و بدحالی کا مجموعہ ہیں ۔ ماں نے اپنے جہیز میں ملنے والے جھمکے عاشو کو دینے کا فیصلہ کرکے خود کو امر محسوس کیا۔ اسی رات اس بدنصیب کچے محل  میں موجود تمام سامان کا صفایا کردیا گیا ۔ صبح آنکھ کھلی تو گھر میں سوائے بکھرے پڑے چند کپڑوں کے کچھ نظر نہ آیا۔بوسیدہ دیواروں کے سدابہار غمگین سائے تلے بیٹھی عاشو کی آنکھیں مہندی والے ہاتھوں پر ارمانوں کا خون تلاش کررہی تھیں ۔جمن کا سرمایہ حیات یوں لوٹ لیا گیا جیسے کسی راہ چلتے مسافر سے رہزن سب کچھ چھین کر اسے پاپیادہ ہی منزل تک پہنچانے کےلئے بھیڑوں کی طرح ہانکتے جائیں۔مال و اسباب لٹنے کے بعد جمیلہ کے دل پر یہ سوچ کر بجلی گری کہ اب  بیٹی ہمیشہ اس کھنڈر میں زندگی بسر کرے گی کیونکہ نہ جہیز ہوگا نہ سکینہ اسے اپنی بہو بنائے گی۔ داور محشر نے تو غریب کو حشر کے روز تک انصاف کے انتظار میں ٹھہرا دیا۔ عرش کے  خدا کو حال دل سنانے کے بعد فرش کے خدا سے رودادِ بے بسی کہنے کا وقت آچکا تھا۔

جمن نے بیوی کو آنسوؤں سے تر دوپٹہ درست کرتے دیکھا تو کہنے لگا:- مجھ غریب کا ساتھ کون دے گا اب کس کے پاس جاؤں اب کون سنے گا مجھ لاچار کی میری تو زندگی بھر کی کمائی لٹ چکی نہ بیٹی بیاہ سکا نہ بیٹے کی طرح پالے ہوئے بیل کو بچا پایا ۔ جمیلہ نے آنسو پونچھتے ہوئے ایسا نام لیا کہ جیسے آخری سہارا وہی رہ گیا ہو چوہدری صاحب!! سسکتے ہوئے دوبارہ کہنے لگی چوہدری کے پاس جاؤ وہ ساتھ دے گا ۔ہم جیسے غریبوں کا خیرخواہ ایک ہی تو ہے ۔ جمن نے چند غم گساروں کو ساتھ لیا اور چوہدری کے ڈیرے پر آ ماتھا ٹیکا۔ چوہدری صاحب نئی نویلی دلہن جیسی خوبصورت چارپائی سے اٹھے کمرے سے باہر پگڑی درست کرتے ہوئے آ پہنچے ۔ آن کی آن میں جمن کی روتی سسکتی آواز اپنے قدموں سے آتی ہوئی محسوس کی اور پورے ایک مہینے تک یہی دلاسہ دیتے رہے کہ ہم تو پیدا ہی غریبوں کی خدمت کے لیے ہوئے ہیں۔


___________________________________ سرائیکی افسانہ


اوتری دا لکھت:- عدنان فدا سعیدی

وے حقے تے بھا رکھ آئیں اوتری دا ؟ وڈے ملک صیب اپنڑے چٹے پٹکے دے ول بنڑیندے ہوئیں سامنڑے کھڑے ہوئے کرموں کو زور دا سڈ ماریا جیویں جو کرموں ڈوہیں کنیں کنوں بوڑا ہووے۔ سڈ سنڑ تے چٹے والیں آلا بڈھڑا کرموں جی شئیں جی شئیں کریندا حقے دے پھل کوں آ چاتا تے ملک صیب دے گھروں چلہے توں بھا چاونڑ کیتے جلدی نال ٹر پیا۔ اصل ناں تاں ہس کرم حسین تے اماں ابا پیار نال کرموں کرموں سڈیندے ہن بلکی عمر وچ ایہو ناں جو پکیا تاں وستی دا ہر بندہ کرموں کرموں آہدا رہ گیا جے تک وستی دے زمیدار وڈے ملک صیب خیر محمد ایں ناں کوں بدلیا ناں ۔ تھیا ایویں جو ہک واری وڈے ملک صیب کنے کئی شہر دے مہمان آگئے ۔ رات دا کئی ویلھا ہا تے کرموں تے آفت آئی جو ونج تے روٹی پکواوے تے نال کھڑ تے مہمانیں دی خدمت وی کرے وڈے ملک صیب دے مہمان ہن خدمت تاں ڈاڈھی کرنی ہئی ۔ روٹی ٹکر تیار تھیا تے کرموں چائی آندا ہووے تے نندر کنوں دھوڑا آیا تے سالن وٹیج پیا۔ وڈے ملک صیب جو منظر ڈٹھا تے ڈو چار مندے وی چھک ڈتس تے نال اوتری دا اینجھے لہجے نال سڈیس کہ شودے کرموں دے اتے سارے مہمان کھل پئے۔ اوتری دا لقب گھن تے کرموں اپنڑے نصیب تے روندا واپس چلہے آلے پاسے ولیا ۔کجھ دیر بعد وت کئی سالن دے انتظام دا بندوبست کیتا گیا تے وڈے ملک صیب اکھوا پٹھیا کہ ہنڑ ایں اوتری دے پتر دے ہتھ نہ ڈیواہے نقصان کریندے۔ رات دے ایں ویلھے مہمانیں دی خدمت وچ مصروف کرموں کوں اے گال ایویں لگی جیویں وڈے ملک صیب دے لفظ نہ ہن بلکہ بندوق دی گولی ہئی تے سدھا سینے دے وچ ٹھاہ تھئی۔ آخر غریب کنے عزت دے علاؤہ ہوندا وی کیا ہے ۔ ایہا عزت ہی تاں غریب دا سرمایہ ہوندے ۔ تے فرش دے فرعونیں دیاں خدمتاں کر کر تے اوہا عزت ای ظالمیں دے ہتھوں لئی لام کروا بہندن ۔ کرموں جیویں کیویں او ویلھا گزاریا نہ بکھ دا پتہ نہ تریہہ دی خبر ہکو ارمان لگا رہ گیا کہ ساریں دے سامنڑے اوتری دا اوتری دا سڈیا گئے۔ سویر تھئی تاں وت مہمانیں دی خدمت داری کیتی گئی تے وت کرموں ڈوہیں ہتھ جوڑ تے کھڑا رہیا کہ کڈاں حکم تھیوے تے پورا کراں لیکن وڈے ملک صیب ہک واری ولا تیر جوڑ چنبھایا جو ایں اوتری دے کنوں کئی روٹی ٹکر دا کم نہ ڈسایا کرو۔ بس حقے تے بھا رکھے ایہو کافی اے ۔مہمان لنگھ گئے تے جیہڑا وی دیرے تے آیا وڈے ملک صیب اوندے سامنڑے کرموں کو اوتری دا آکھ تے سڈ ماریا۔ اے تک کہ چھوٹے چھوٹے بال وی کرموں کو اوتری دا آکھدے رہیے ۔ کئی ڈینہہ گزر گئے لیکن اوتری دا لفظ استعمال تھیندا رہیا تے کرموں کرموں دی بجائے اوتری دا ناں پک گیا۔ ہک واری رات دا کئی ویلھا تے نندر اکھیں توں غائب کرموں سوچیندیں سوچیندیں پریشان کہ وڈے ملک صیب چنگا نی کیتا اوتری دا مشہور کر ڈتے مار مکایا تاں پہلے ہی ہانے جڈاں نمانڑی دی شادی کیتے پنجاہ ہزار ادھارا گھن گیا ہم تے سود پرافٹ دے ناں تے میڈے گھر دے گھر کوں کنگال کر ڈتا ہانے ہنڑ خالی کرموں کرموں ناں بچ گیا ہا ایندا وی تڈا چاتے نے ۔ رات ڈینہہ تاں انہاں دی خدمت وچ گزردی اے تے خالی ناں وی نی بچیا ۔ تے کرموں دے دل وچ خیال آیا جو بھلا نوکریں دے وی ناں ہوندن کیا ۔ مالکیں دی مرضی جیویں سڈن سڈ سگدن ۔ ہولے ہولے کرموں وی عادی تھی گیا جو کوئی بندہ اوتری دا سڈ وی گھنے تاں کاوڑ نہ کرنی کیوں جو اے وڈے ملک صیب دا دان کیتا ہویا لقب اے ایں سانگے برداشت کرنے آخر غریبی برداشت کوں ای آہدن ۔ کجھ ڈیہنہ گزریے تے شہر وچوں اپنڑی تعلیم مکمل کر تے چھوٹے ملک صیب وستی وچ آ گئے وڈے ملک خیر محمد دا ہکو پتر ہا تے لاڈیں نال پلیا ۔ وستی آیا تاں اپنڑے نال کتے کوں وی گھدی آیا جیندے گل وچ سونے وانگوں بلدا زنجیر تے چٹا کھمبور رنگ ڈسیندا ہا جو کتا باہرلے ملکوں منگوایا گئے چھوٹے ملک شوکت صیب نال کتا ہر ویلھے نال نال ٹرے ہا تے ملک صیب وی بالیں آلی کار کتے نال لاڈ کرن ہا ایں حد تک جو کتے دا ناں وی چیمپئن رکھی کھڑے ہن۔چھوٹا ملک صیب سویرے اٹھے تے چیمپئن چیمپئن سڈے ہا تے او کتا بھجدا بھجدا ملک صیب دے نال آ کھڑے ہا چھوٹا ملک صیب پیار گھن تے کتے دی گچی تے ہتھ رکھے ہا تے چھوٹے بالیں وانگوں لاڈ نال باہر گھن ونجے ہا۔تے رستے وچ چھوٹے ملک صیب دے ہتھوں جیکر پٹہ چھٹ پووے ہا تاں ٹردے بندے دیاں سر نال جنگھاں ہوندیاں ہن چھوٹے ملک صیب کھل کھل کنوں بڈ ونجن ہا تے چیمپئن چیمپئن دی آواز نال کتے کوں واپس سڈن ہا۔ ہک واری تپدے ڈوپہریں چھوٹے ملک صیب چیمپئن نال اپنڑے ایئر کنڈیشنڈ کمرے وچ بیٹھے ہن تے باہروں ٹالھی دی چھاں تلے بیٹھے ہوئیے کرموں دے کنیں کئو آئی اے ۔ اوتری دا ایڈے آویں ہا ذرا چیمپئن کیتے میڈی کار دے وچوں بسکٹ کڈھ آ۔ کرموں سڈ سنڑ تے جلدی نال کمرے وچ گیا تاں سدھے سادے بندے کوں کیا خبر جو ملک صیب دے کمرے وچ جتی پاتی وینداں۔ بس ایہو ہک ڈو قدم ای اندر رکھیے ہوسن تے چھوٹے ملک صیب دے منہ وچوں ست سو مندے نکلیے جو اندھا تھی گئیں جتی لہا تے تاں اندر آ ۔کرموں دی عادت بنڑ گئی ہئی مندے کھاونڑ دی لیکن ڈکھ لگیا جو بھل تے ملک صیب دے کمرے وچ پیر پا کھڑاں تے سلوک اوہو تھئے جیویں ہندو برہمن تے پجاری دے در تے کوئی اچھوت نال تھیندے اچھا ملک صیب کنوں وت ڈوڈھے دے دانڑے وی تاں جھلیم۔ خیر ویلھا ہا گزر گیا تے کجھ ڈینہہ بعد ہک جھیڑے دا فیصلہ کراونڑ وستی دا ہک جٹ تے جنس دا وپاری آیا تے وڈے ملک صیب جٹ غریب دی بجائے وپاری کوں اہمیت ڈتی کیوں جو وپاری نال چھوٹے ملک صیب دی سلام دعا ہئی تے شہر مال وچیندیں ہوئیں ہک واری چھوٹے ملک صیب نال ٹکرا تھیا تے روٹی ٹکر کٹھے ہوٹل تے کھادو نے۔جٹ کپاہ دے سودے وچ وپاری کنوں گھاٹا چاتا تے ملک صیب کہیں طرحویں جٹ تے جرمانہ رکھیا اینجھے انصاف کوں ڈیکھ کراہیں جٹ رو رو ارداس کیتی اوندی ارداس سنڑ تے کرموں کوں وی روونڑ آیا۔ لیکن ملک صیب فیصلہ تبدیل نہ کیتا اینجھے فیصلے وسدے ویہڑے کوں اوترک کرن دے برابر ہوندن۔ رو رو تے جٹ گھر ول گیا وڈے ملک صیب وپاری نال کھنڈ کھیر تھئے تے اوں ویلھے چھوٹے ملک صیب دے پاسے نال بیٹھا ہویا چیمپئن سونے وانگوں بلدا زنجیر پا تے کرموں کوں ڈیہدیں ہوئیں آہدا بیٹھا ہا کہ اصل اوتری دے کون اے------------------


__________________________________ غزل جڈاں تیڈی مونجھ نال مونہہ ماری تھیندی اے تھولی تھولی جھیڑے کاری ڈھیر ساری تھیندی اے

جڈاں واسی بھوئیں دا عرشی کوں یار آکھے

عشق بھاء وچ نیندے پکی یاری تھیندی اے

جڈاں جڈاں یاد آوے اپنڑا پرانڑا گھر

مونجھ کنوں ہنجوں دی نئیں جاری تھیندی اے

میکوں آکھ جو آکھ لوکیں کوں تاں نہ آکھ

جگ کھل پوندے جڈاں شرمساری تھیندی اے

سر اتے بار ہوون جند گھن ویندے ہن

فرضیں دی گنڈھڑی وی ڈاڈھی باری تھیندی اے

رس پووے یار جڈاں ہتھیں پیریں پوندے ہئیں

نین والی نئیں توں ہنجھ جاری تھیندی اے

ٹھڈ بھانویں سیک پجے جڈاں تیڈے پیار دا

مٹی والی جان وی نوری ناری تھیندی اے

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

ہتھ میڈے اوں دلربا دا ہتھ اگر ہووے پیا

خوف نی جتنا بھانویں ڈکھ دا سفر ہووے پیا

"تھل مارو دا سارا سفر تھیندے بلہانگاں ڈو فقط"

آکھیا چکوری تک کراہیں چن دا چکر ہووہے پیا

سردار دے کردار وچ سو داغ ہن تاں کیا تھیا

تیڈے اعمالیں دا ملیے تیکوں ثمر ہووے پیا

روز حشر جے وچھاونڑے پر پیریں وچ "دنیا تے پر

ہاڑ ہے اج ظلم دا سر تے وی پر ہووے پیا"

ضدی بلا ہے بوجہل ہتھیں ڈٹھی وی نا منے

خیر اےکہیں یمنی کیتے شق القمر ہووے پیا

اتھ سادگی دے سوگ ہن اتھ بے چجی دے بھوگ ہن

کوئی خوف نی دشمن اندر مپ تے مکر ہووے پیا

حق دا علم جو بلند ہے عدنان کوئی سوکھا نی تھیا

نیزے تے سر تاں پہنچدے سجدے اچ سر ہووے پیا

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

1....


...2.....جیندیں جی جو معیار رس ویندن

منہ دے سارے مکار رس ویندن

ہک وی رستہ چنڑو چا نفرت دا

حب دے سارے مدار رس ویندن

پنجے منہ اچ تاں ٹھیک ٹھاک ہوندن

ہک کڈھو چا تاں پیار رس ویندن

خوشی تے رسدن تاں منا خوش تھیندوں

کئی تاں غم اچ غدار رس ویندن

خیر خوش کر تے ٹال ڈیندے سے

سچ الیندوں تاں یار رس ویندن

حق تے عدنان سر جے چاوو چا

سارے سر دے سوار رس ویندن۔۔۔۔

2

. کتھاں کہیں بے ضمیرے کوں کہاڑے مار گھتدے ہن

حیا والے کوں اکھیں دے اشارے مار گھتدے ہن

جمنڑے توں جوانی تئیں سہارے ڈے ڈے لولھا تھئے

اوں بڈھڑے کوں جوانیں دے سہارے مار گھتدے ہن

کہیں مجبور مفلس دی حیاتی دا مطالعہ کر

گزارے کر گزاری ہس گزارے مار گھتدے ہن

مہانگے مل کڈاں لگدن بھلا کرڑی زمینیں دے

جڈاں مالک محتاج ہوون مزارعے مار گھتدے ہن

نکھیڑا حق تے باطل دا ضروری ہے جو مقتل وچ

ڈوہئیں پاسوں ہکو جے ہن جو نعرے مار گھتدے ہن

حیاتی تے مواتی دا ایہو عدنان نکتہ ہئی

مریندی موت نی ساہ ہن ادھارے مار گھتدے ہن..-----

آزاد نظم

1...

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3۔۔۔


۔۔۔۔۔۔۔۔

4...

............ 5۔۔۔

۔۔




غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

1...

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔۔۔۔۔


ہنجوں پپلیں اتے منہ تے ٹھکارے ٹھیک نی ہوندے

تھیون یاریں دی یاری توں خسارے ٹھیک نی ہوندے

میکوں ہے مونجھ محشر دی میکوں ہے یار دا چنتا

ڈھلدی شام کوں ولساں اے لارے ٹھیک نی ہوندے


جے اپنڑے ساہ ہوون ہا ولا تاں مانڑ چھکدا ہا

ادھارے ساہ تے وجدے نگارے ٹھیک نی ہوندے

اکھیں کیوں حال ڈیون پیاں جو گزری دل دی دھرتی تے

جے منہ دے بول نا ہوون اشارے ٹھیک نی ہوندے

بھرا جیکر نا مخلص ہن تاں یاریں کیا کسر چھوڑی

سبھے رشتے سکھا گئے ہن سہارے ٹھیک نی ہوندے

ہر ظالم دی جھوک اتے قلم باغی زباناں تھیاں

اتھاں روزہ رکھو چپ دا بلارے ٹھیک نی ہوندے ...--------

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

ہیں سئیں ڈکھڑے سنڑدے رہندو؟

ہیں سئیں درد ونڈیندے رہندو ؟

ہیں سئیں کینجھا دور آ گیا ہے ؟

ہیں سئیں ولدا ڈیندے رہندو ؟

ہیں سئیں تریہہ توں کتنا مردن؟

ہیں سئیں غور کریندے رہندو؟

ہیں سئیں غربت کیوں جوڑیئے وے؟

ہیں سئیں بکھ بخشیندے رہندو ؟

ہیں سئیں بال یتیم جو تھیندن

ہیں سئیں دل بدھویندے رہندو؟

ہیں سئیں کال دے ہاڑ چا ڈیندو

سکھ دا پوہ وی ڈیندے رہندو؟

ہیں سئیں کہیں مزدور دی دھی دے

چٹے وال ان غور کیتے وے؟

ہیں سئیں کہیں مجبور دے گھر دے

مندڑے حال ان غور کیتے وے؟

ہیں سئیں اج تاں آدم جئیں دے

کینجھے حال ان غور کیتے وے؟

ہیں سئیں جگ کوں جوڑ کراہیں

ہیں سئیں خوب ٹھہیندے بیٹھو...

ہیں سئیں آپ تاں جوڑیا ہاوے

ہیں سئیں ؟ آپ ونجیندے بیٹھو -! ........

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

گھاٹے دو گھیل گھن ویندن اظہار دے سودے

ساکوں نی راس آندے تیڈے پیار دے سودے

یاد ہئی؟ اتھاں کیتے ہانی وعدے الست دے

جنت توں کڈھایو نے اے اقرار دے سودے

منہ تے کجھ تے کنڈھ پچھوں کجھ بیا الاوے جو

کمی دا کم ہوندا ہے کردار دے سودے

حق والے کہیں طور وی وکدے نہیں رہندے

پھلیں کڈاہیں کیتے نہیں مہکاردے سودے.

عدنان دی اے جان جنہاں دی ہے او ڈس گن

سر حاضر اے تھیندے نئیں دستار دے سودے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افسانہ

پارت افسانہ نگار

عدنان فدا سعیدی

بخت پتر ایویں ہوندن ہک ڈینہوار میڈے ٻال دا سارے ملخ تے چرچا ہوسی ڈکھائے سہی ۔ ماما مشتاق اپݨے وڈے پتر صفدر دے مونڈھے تے ہتھ رکھیندے ہوئیں گھر وچ بیٹھے ساریں حق ہمسائیں کوں سݨایا جیہڑے صفدر کوں چوڈویں دے امتحان پاس کرݨ دی خوشی وچ مٹھائی تے مُبارک ڈیوݨ آئے بیٹھے ہن۔ ساری وستی نال ماما مشتاق بݨا تے رکھی ہئی اڃ تک کہیں کوں گلہ کائنا ہا جو ساڈے نال ونڃائی کھڑے ایں سانگوں تاں سارے وستی آلے صفدر دے پاس تھیوݨ دی خوشی وچ مبارخ ڈیوݨ آئے۔ ماسی نذیراں مشتاق کوں خوش ڈِٹھا تے پچھݨ لگی جو ہݨ اپݨے نکے کوں نوکری جوڳا کر ڈتی تے نوکری لوا تے جلدی ایندی خوشی ڈیکھوں۔ ماما مشتاق کھلدیں ہوئیں ماسی نذیراں کوں ڈِٹھا تے آکھݨ لڳا پہلے پڑھئی تاں پوری کرے پچھے پرنیساں جوان کوں۔ ماسی نذیراں نال آلی ہمسئی دے کن لڳ ڳئی جو اڃاں چوکھا پڑھیسی پتر کوں ڈوجھی مئی جواب ڈتا جو اماں ماما مشتاق آہدے جو میڈا پتر سولہاں پڑھے ماسی نذیراں دا وات پٹیج گیا۔ ہئیں چوڈاں کنوں اڳوں تے وی پڑھئی ہوندی اے کیا؟ ماما مشتاق سݨ تے کھل پیا تے آکھݨ لگا ہا ماسی ہوندی اے تے ہݨ اپݨے بخت پتر کوں شہر ٻھجیساں تے پڑھئی پوری کر آؤسی ۔ خیر وستی دے سارے سنگتی ساتھی حق ہمسائے مبارخ ڈیوݨ آئے تے ہک رشتے دار پچھ گھدا جو صفدر پتر کوں جو شہر ٻھجیسو پڑھئی کیتے اتھاں کیندے کنے ونج ٹکسی ۔ ایہا ڳال ماما مشتاق سݨ تے سوچݨ ٻہہ گیا جے تئیں صفدر آکھیا ابا او چاچا امجد جو شہر گھر بݨائی کھڑے اوندے نال تاں ڳالھ کرو ہا متاں اتھائیں جاہ بݨ ونجے ماما مشتاق غور نال پتر کوں ڈِٹھا تے آکھݨ لڳا میڈا بخت ٻئے دے سہارے گولݨ چنڳی ڳالھ نی ہوندی تیڈے کیتے کرائے تے مکان گھنسوں لیکن کہیں دا احسان ناں چیسوں۔ کجھ ڈینہہ لنگھ گئے تے صفدر دا داخلہ وی یونیورسٹی تھی گیا پڑھئی دے نال نال کئی کم وی لبھݨ دا سوچیندا رہیا۔ ماما مشتاق آہدا رہ ڳیا جو پتر توں کتھائیں ہاسٹل رہݨ دا پروگرام بݨا یا وت کرائے تے مکان گھن چا میں پیسے بھیڃی رہساں ۔ لیکن صفدر بابے تے ٻوجھ بݨن گوارا ناں کیتا ۔ تے آکھݨ لڳا ابا سئیں تساں بے فکرے تھی گھر ونجو میں کئی کم شم ڳول کراہئیں اپݨا ٹکر پاݨی دا خرچہ کڈھی رہساں تے رات دا چاچے امجد کول ونج سمدا رہساں ۔ آخر ماما مشتاق پتر اڳوں ڈھیج پیا تے امجد دے مکان تے پتر سمیت ونڃ پناں دروازہ کھڑکائیس تے اندروں امجد دا الا آیا جی کون؟؟ ماما مشتاق الاݨا تھیا جو دروازہ تے کھول تیکوں سدھ لڳسی جو کون۔ امجد ماما مشتاق دا الا سنڃاݨ تے تکھے تکھے دروازہ کھولیس تے ست بسم اللہ آکھ تے ڳلا پاتس ماما مشتاق گلا پیندی جاہ تے امجد دیاں گدڑیاں کڈھݨ لگا تے امجد کھلدیں کھلدیں گلا چھڑوایا تے نال کھڑے صفدر کوں جلدی نال سینے نال چا لاتس ہیں صفدر وڈا سارا تھی گئیں پتر آ ڈیکھ ہاں تیڈا قد میڈے سواں تھی گئے صفدر نال کھل مزاق کریندیں ہوئیں ٻانھ نپ تے امجد کمرے وچ ڳھدی گیا تے نال ماما مشتاق وی تسلی کیتس جو میڈے پتر نال بالیں وانگوں پیار کریندے اگر پتر صفدر اتھائیں رہ ڳیا تاں فکر کائنا تھیسے۔ خیر خوش کر تے امجد باہر گیا تے روٹی ٹکر دا انتظام کر آیا صفدر اپݨے بابے کوں آکھیا جو ڈیکھ ہاں ابا چاچا امجد کیویں ٹھردے تیڈے کیتے تے تیڈے بالیں کیتے ساڳی اپݨے بالیں وانگوں پیار کریندے ۔ امجد روٹی ٹکر دے بعد کوک بوتل چا آیا تے آکھݨ لگا یاد ہئی ماما مشتاق تیڈا ناں ماما کئیں رکھیا ہا ؟ ماما مشتاق کئی پراݨی ڳالھ یاد کرتے کھل کھل کنوں بڈ گیا جو یاد اے تیڈی مہربانی ہئی تئیں میڈا ناں ماما ماما پکایا ہا۔ امجد ڳالھ یاد ڈیویندے ہوئیں الاݨا تھیا جو کوک دی بوتل شرط لگی ہئی جو پٹھاݨ کنوں سستے کپڑے کؤن گھن آؤسی ۔ وت ماما توں ڳالھ کیتو تے پٹھاݨ تیکوں ماما آکھ ڈتا ہا ماما مشتاق کھل کھل تے ککھاں گھدی پیا ہووے تاں امجد دا حال نہ مکا۔ وت تیکوں ہر جاہ تے میں ماما ماما سڈیندا رہیاں تے ہݨ تے لگدے بھڃائی وی کڈاہیں ماما سڈ ٻہندی ہوسی خیر اے ٻٹ کڑاک زور دی لڳی تے امجد کوں ماما مشتاق ڈسایا جو ہݨ تیڈا بھتریجا تیڈے نال رہسی ڈینہہ تاں سارا یونیورسٹی پڑھئی وچ گزرسی تے رات دا تیڈے کنے ٹکدا رہسی۔ امجد خوش تھی تے ہامی بھری جو ایندا اپݨا گھر اے جیویں آوے جیہڑے ویلھے آوے ست بسم اللہ میں ہک چاٻی اینکوں چا ڈینداں۔ اونویں وی میں کلھا رہ رہ تے تھک پیاں چلو اپݨا بھتریجا ہوسی بٹ کڑاک لئی رہسوں۔ ماما مشتاق صفدر کوں امجد بھرا دے حوالے کر تے گھر دو روانہ تھیا تے آوݨ ویلھے امجد کو آکھی آیا جو میڈے ٻال دی پارت ای ادا۔ صفدر تے چاچا امجد کٹھے رہݨ پئے گئے تے جیہڑے ویلھے امجد دکان بند کر تے آوے ہا روٹی ٹکر کھا تے امدا ہا دکان تے ایڈوں صفدر وی روٹی ٹکر کھا تے واپس مکان تے آپجے ہا۔ صفدر روزانہ سویلے سویلے نماز ویلھے اٹھے تے نماز قرآن دے بعد تیاری کر تے سدھا یونیورسٹی اتھاں ناشتے آلی جاہ تے ناشتہ کر تے کلاس ویلھے کلاس وچ کئی ناغہ ناں کریندا ہا دل نال پڑھدا رہ ڳیا تے یونیورسٹی دے بعد ہک جنرل سٹور تے وی ڈیوٹی ڈیوݨ ویندا ہا۔ تے روٹی ٹکر اتھاؤں کھا تے امدا ہا بخت اینجھا ہا جو گھر آلیں کنوں روپیہ وی نہ منگوائیس ہتھوں کجھ ناں کجھ بچا کھنجا تے رکھیندا رہیا جو بعد وچ ڈکھے سکھے ویلھے پکر پوسن۔ خالی جیب تاں چنڳے بھلے کوں ای بجے ڈیندی اے ڈو آنے لاتھے جو ہوون ضرورت ویلھے جی کریندن۔ ہک ڈینہوار امجد دی جو سیئت ہری کھڑی ہئی سامان گھنݨ وڈے بازار ڳیا تے آرڈر ڈتس جو اے اے سامان لوڑھ اے ۔ تے بل بݨاؤ پیسے ڈیواں سامان سارا لکھیج گیا بل وی بݨ ڳیا تے پیسے ڈیوݨ دی واری آئی تاں جیب وچ ہتھ مارے تاں خالی ۔ پریشان تھیوݨ دی لوڑھ ناں تھئی کیوں جو پیسیں آلا ٻٹوا دکان تے بھل ڳیا ہا۔ سامان دا آرڈر لکھوا تے کل پچا ڈیواہے دا حکم جاری کیتس تے دکان آلے پاسے ٹر پیا ۔ دکان توں ٻٹوا چاتس تے گھر دو روانہ تھیا جو سویلے دکان تے سامان وی لہوا گھنسوں تے بل وی ڈے ڈیسوں ۔ رکشے آلے کوں روکیس جو فلانے چوک تک ڃلسیں ؟ رکشے آلے جیا آکھ تے رکشہ سامݨے آ روکیا۔ نال ہک ٻئی سواری وی پہلے ٻیٹھی ہئی تے امجد وی ٻہہ ڳیا ۔ ایں دوران ڈوجھے بندے نے امجد دی جیب وچوں ٻٹوا کڈھ گھدا تے امجد کوں سدھ ای ناں لڳی ۔ امجد دے گھر دے نال آلا چوک آیا تے رکشہ سامݨے ڳلی دے ونج رکیا ۔ امجد ڈوجھی جیب وچوں بھانج کڈھی تے پنج پنج روپے ألے سکے گݨ تے رکشے آلے کوں کرایہ ڈتا لیکن ٻٹوے آلی جیب وچ ہتھ مارݨ دا خیال وی نہ آیا۔ گھر آیا تاں قمیض لہا تے کلی تے ٹنگ کھڑائیس تے کھٹڑے تے ونج ستا۔ تھوڑی دیر بعد صفدر وی گھر آڳیا تے دروازہ کھولیس آرام نال ہولے ہولے قدم چیندا کمرے وچ آیا بیگ رکھ تے کپڑے وٹا گھدس وت بلب بند کرتے سم تھیا جو سویلے نماز ویلھے اٹھݨا ہوندے۔ سویل تھئی تے صفدر نماز قرآن دے بعد بیگ مونڈھے تے رکھیندا یونیورسٹی پڃ ڳیا۔ پچھوں امجد دی جاڳ تھئی تے تیاری کریندا دکان تے ونجݨ لڳا یاد آیا جو پیسے چئی ونجاں اجھو مال آ ویسی تے بل ڈیوݨے ۔ قمیض جو کلی توں لہاوے تاں وچوں ٻٹوا غائب ۔ تسلی کیتے ولا ولا جیباں پھرول گھدس لیکن ٻٹوا نا لدھا۔ اٻالھ وچ دکان تے پجیا تے دراز چھاݨ ماریئس لیکن ٻٹوا تھڃوں نہ لدھا یقین تاں ہس جو ٻٹوا رات چا تے ڳیا ہم لیکن وہم دا بھلا کوئی علاج اے کیا وہم دا علاج تاں حکیم لقمان کنے وی کائنا ہا ۔ ہولے ہولے شک تھیندا گیا جو ٻٹوا گھروں چوری تھئے ۔ بھلا گھر وچ کون آوے ہا چوری کرن تے او وی اندر کمرے دے جتھاں تالہ لڳا کھڑا ہووے اتھاں بغیر تالہ تروڑیئے کون آ تے ٻٹوا چوری کر ونجے ۔ شک تھیا جو سویلے صفدر جلدی اٹھدے اوں ٻٹوا چاتا ہوسی۔ گھنٹہ پورا ایہو شک دماغ اچ کئی طرحاں دے وہم پلیندا رہیا آخرکار ہک خیال آیا جو نیڑے آلی مسیت وچ ہک بھوپا رہندے تے اوندے کنوں حساب کرا آواں ۔ وستی دا بندہ بھانویں وستی ہووے یا شہر وچ کتھائیں ناں کتھائیں وہم دی بیماری دے ہتھیں آویندے ۔ امجد شہر اچ زندگی گزاری ٻیٹھا ہا لیکن وت وی وہم دی بیماری نہ گئی ہس خیر ویلھے نال بھوپے دے سر ونج تھیا تے حال ڈتس جو ٻٹوا چوری تھی گئے تے ٻٹوے وچ پینتری ہزار روپیہ ہا ۔ بھوپے غور نال ڈِٹھا تے آکھݨ لڳا دعا کریندوں اللّٰہ کریسی مل ویسی ۔ امجد بھوپے دے مطلب کوں سمجھ گھدا تے ہتھ وچ پنج سو روپے آلا ٻدھا نوٹ مٹھ گھٹ تے ڈتس تے آکھیس حساب کرو ہا بابا چور دا پتہ لگ ونڃے ہا ۔ بھوپے دا مطلب پورا تھیا تاں او کچی پینسل چا تے چٹے کاغذ تے لکیراں ماریاں ٻٹوے دا رنگ پچھیئس تے قمیض دا رنگ وی ۔ امجد سر توں پیریں تک سارا حال ڈتا۔ بھوپا ڈو چار منٹ لیکے مریندا رہیا تے آکھݨ لگا جو ہک وڈے والیں آلے بندے تیڈے پیسے چاتن تے او چٹے رنگ دے کپڑے وی پیندے ۔ امجد دا شک پک وچ تبدیل تھیندا گیا جو وڈے وال تاں صفدر دے وی ہن تے اوندے چٹے رنگ دے ڈو سوٹ وی ہن پئے۔ بھوپے کنوں فارغ تھیا تاں نہ اڳھ پچھیا نہ بڳھ سدھا سدھا اوں جنرل سٹور تے آپجیا جتھاں صفدر یونیورسٹی دے بعد کم کریندا ہا تے رؤٹی ٹکر وی جنرل سٹور آلے ڈیندے ہن۔ صفدر شیشے دے سامݨے چاچے امجد کوں ڈٹھا تے خوش تھیندا ٻاہر آوݨ لگا۔ امجد کوڑیج تے صفدر کوں اتھائیں کھڑݨ دا اشارہ کیتا۔ صفدر حیران پریشان جو خیر تاں ہے چاچا کیوں کاوڑیا ودے ۔ نمک حرام آ لوبھی آ پلیت آ تیکوں ٹکݨ کیتے جاہ ڈتم توں میڈے پورھئیے تے آنھے پوڑی چا امجد دے مُنہ سؤ سؤ مندے نکھتے تے جنرل سٹور تے کھڑے سارے بندے حیران پریشان جو پتہ نئیں تھیا کیا ہے۔ صفدر اتنے مندے سݨ تے الاوݨ لگا تاں چاچے امجد وت مندے کڈھݨ شروع تھیا۔ جنرل سٹور دا مالک اٹھیا تے اوں امجد کوں چپ کروایا جو اتھاں تماشہ نہ بݨاؤ ڳالھ کیا ہے ٹھڈے ہاں نال ڳالھ کرو امجد ڈسایا جو ایں لوبھݨ رن دے پتر رات ٻٹوا چوری کیتے وچ پینتری ہزار روپیہ ہا میں سامان دے بل کیتے جیب وچ پئی ودا ہم۔ صفدر ہیسے تے ٻٹوے دا ناں سݨ تے قسم چا چاتی جو میکوں تاں سدھ ای کائنی جو کیہڑے پیسے تے کیہڑا ٻٹوا۔ پر امجد زوریں مسائیں تھپیج ڳیا جو میں حساب وی کروائے اتھاں وی تیڈیاں نشانیاں ڈسیے نے تے مکان تے وی تیڈے بغیر ٻیا کوئی بندہ نی آسڳدا یا تاں میکوں پیسے رس یا وت میں تھاݨے وینداں تیڈی ساڈی ملاقات اتھائیں تھیسے وت۔ تھاݨے دا ناں سݨ تے جنرل سٹور دے مالک امجد کوں آکھیا جو اساں تیکوں اتھائیں رس پوووں تے تئیں تھاݨے ضروری ونجݨے ۔ امجد آکھیا ایں پلیت دی تنخاہ وچوں میڈا نقصان پورا کرو ۔ صفدر تاں تنخاہ گھن تے یونیورسٹی دی فیس بھری کھڑا ہا ۔ مالک امجد کوں آکھیا جو ایویں کر توں کلمہ بھر تے آکھ چا جو میڈا چور صفدر اے پیسے میں ڈینداں۔ امجد کوں بھوپے تے پکا یقین ہا جو اوں سچا حساب کیتے کوڑ نی مار سگدا ۔ تہوں کلمہ بھر تے آکھیس جو میڈا چور صفدر اے جنرل سٹور دے مالک جلدی نال پینتری ہزار روپیہ گلے وچوں گݨ ڈتا تے امجد کوں آکھیس اتھوں روانہ تھی متاں تیڈی نحوشت کنوں ساڈے اتے عذاب ترٹے۔ امجد پینتری ہزار گݨ گھدس تے صفدر دو مونہہ کر تے آکھیس شکر کر جو ماما مشتاق میکوں تیڈی پارت ڈتی ڳیا ہا نا تاں اج تیڈا حشر نشر کراں ہا