عاشق بزدار دی اردو شاعری

وکیپیڈیا توں

سرائیکی ادب دے مہان شاعر،دانشور تے سیاسی راہنما سئیں عاشق بزدار سرائیکی شاعری دے نال نال اردو شاعری کیتی ھے، جیندا مکمل مواد اردو شاعری اپݨے ہتھیں نال ملک محمد رمضان آرائیں کُوں سپرد کیتے سرائیکی وکیپیڈیا دے کیتے سئیں عاشق بُزدار سرائیکی ءچ ادبی ناں عاشقؔ تے اردو شاعری ءِچ وفاؔ تخلص اختیار کیتے.

انھاں دیاں کجھ اردو غزلاں ایہ ہن۔

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

دریدہ دامنی جو التفات پا نہ سکی

تو آج کاسئہ سر ہی اُٹھا کےلایا ہوں

کہیں خرد کہیں فرزانگی کہیں پہ جنون

ہر ایک جال سے خود کو بچا کے لایا ہوں

تمہاری دِید کی خاطرتیری خوشی کیلئے

ہجومِ سَنگ زناں وَرغلاکے لایا ہوں

جوفرصتیں ہوں تو چِلمن ہٹاکے دیکھ ذرا

نگارِ زیست تماشا بناکے لایا ہوں

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

ویران کررہاہوں خیالوں کی بستیاں

دِل بُجھ گیا ہےبزم کی اب آرزو نہیں

احساس زخم ہَسہ کے بھی کتنالطیف ہے

روتی ہےآنکھ اور کوئی رُوبرو نہیں

کس کس کےپاس درد کی سوغات لے چلوں

جب خودمریم ذات میں بھی سُرخرو نہیں

آوارگی کا شوق بھی کتنا عجیب ھے

پاؤں لہو ہَیں منزلوں کی جُستجو نہیں

ساقی ستم شعار ذرا اس طرف بھی دیکھ

اشکوں کا اوک ہی تو ہے مئےمشکبو نہیں

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

وہ شخص شہر درد میں سُولی پہ سوگیا

اپنے لہو سے دیس کے چہرے کو دھوگیا

آیاتھا مثل موحہ ءِباد صبا مگر

اتنا تھا جس میں وہ خود کو سمو گیا

برسوں سے بانجھ بانجھ تھی احساس کی

زمیں

نَس نَس میں انقلاب کی چاہَت ہی بو گیا

اپنا جواں لہو سرِمقتل اُچھال کر

درمانِ چشم قدرت یزداں بھگو گیا

اب تو ہر سمت صلیبوں کا راج ہو

ہر شخص اہتمام کی دُنیا میں کھو گیا

تارِ صلیب میرکو شہہ رگ سے کاٹ کر

کتنی حُرمیتوں کا وُہ عنوان ہوگیا

کتنا پہاڑ عزم تھا ٹوٹا جُھکا نہیں

ظالم اجل کی آنکھوں میں آنکھیں چبھو گیا

اور اس سے بڑھ کے اور خراج اُس کوکیاملے

مرگ وفؔا شناس پہ قاتِل بھی رو گیا

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

کبھی جو دَشت کے رستے اِدھر ہوا آئ

جنوں کی آن٘کھ میں وحشت کی برق لہرائ

کٹی ہے عمربہاروں کی جستجو کرتے

فضا بہار کی لیکن نہ ہم کو راس آئ

طلب تو اب بھی اُسے دیکھنے کی دل میں ہے

نہیں ہے دل کو مگرطاقت شکیبائی

ہر ایک سمت کڑی دھوپ کا تسلط ہے

ہرایک چہرے کی رن٘گ ہےکب سے سَنولائی

نجانےکیا ستم ٹوٹیں گے ہم امیروں پر

قفس تلک جو صبا پُھول کو اُڑا لائی

زمیں کی آگ میں جلنے لگے جواں پتے

ہوا کے دوش پہ ڈالی نےلی جوان٘گڑائی

وہ دوست تھا جو ہنسا میری مرگ حسرت پر

غیر ہےکہ یہاں جس کی آن٘کھ بھر آئی

نہ قدر عشق و جنون ہےنہ شوق دادِوفاؔ

جڑےہی کرب میں ہَیں پیار کے تمنائ

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

کبھی جو دَشت کے رستے اِدھر ہوا آئ

جنوں کی آن٘کھ میں وحشت کی برق لہرائ

کٹی ہے عمربہاروں کی جستجو کرتے

فضا بہار کی لیکن نہ ہم کو راس آئ

طلب تو اب بھی اُسے دیکھنے کی دل میں ہے

نہیں ہے دل کو مگرطاقت شکیبائی

ہر ایک سمت کڑی دھوپ کا تسلط ہے

ہرایک چہرے کی رن٘گ ہےکب سے سَنولائی

نجانےکیا ستم ٹوٹیں گے ہم امیروں پر

قفس تلک جو صبا پُھول کو اُڑا لائی

زمیں کی آگ میں جلنے لگے جواں پتے

ہوا کے دوش پہ ڈالی نےلی جوان٘گڑائی

وہ دوست تھا جو ہنسا میری مرگ حسرت پر

غیر ہےکہ یہاں جس کی آن٘کھ بھر آئی

نہ قدر عشق و جنون ہےنہ شوق دادِوفاؔ

جڑےہی کرب میں ہَیں پیار کے تمنائی

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

فراز طُور سے بھی رفعتوں میں بڑھ کر

وہ سرجو وقف ہوا تیرے آستاں کیلئے

چلو کہ دشت سے پھرقیس کوبُلا لائیں

کہ حُسن آج مُخیر ھے اک جہاں کیلئے

سماں کچھ اور تھا ہی گلشن میں لالہ وگُل

سے

ہوا چلی تو نہ پتے رہے نشاں کیلئے

یہ ناؤ کب سےکھڑی ھے اُداس ساحل پر

ہوا یہ کم تو نہیں ظرف بادباں کیلئے

غزل نے لوٹ لی ھے آبروئے غُنچہ وگُل

کوئی تو حرف تسلّی ہوگُلستاں کیلئے

یہی ھے نقش وفؔا کیا یہی ہےرسم نباہ

چمن کا حُسن بِکےعیشِ باغباں کیلئے

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

حسین راہ گزاروں کا تذکرہ نہ کرو

نظر نواز نظاروں کا تذکرہ نہ کرو

عجب ہیں کہ قفس میں ہی گُھٹ کےمرجاؤں

خزاں نصیب بہاروں کا تذکرہ نہ کرو

وہ تنہا چھوڑ کے سب چل دئیے تھےمنزل کو

نباہ کی بات اور یاروں کا تذکرہ نہ کرو

مجھے تو پھول کی قُربت نےزخم بخشا ھے

سوائے پھول کے خاروں کا تذکرہ نہ کرو

جگر کے داغ اور پہلو کے زخم جلتےہَیں

وہ مِل کے بچھڑے سہاروں کا تذکرہ نہ کرو

کسی کے زخم دُکھانا وفؔا کی رِیت نہیں

جفا و جبر کے ماروں کا تذکرہ نہ کرو

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

نمودِ صبح ازل سے خزاں کے مقتل میں

بہار چیختی پھرتی ہےبال بِکھرائے

شبیہہ قَیس اُترتی ہے چان٘د کے رَتھ پر

کہو یہ لیلائے شب سے کہ اب ٹھہرجائے

یہ کس نے پاؤں رکھا دَھرا آج خانہ ءِ دِل

میں

حواس گم ہیں نظر مان٘د ہونٹ پَتھرائے

ٹپک رہی ہَیں فضاؤں سے سُرمئ بون٘دیں

فراز عرش پہ یہ کس نےجام چَھلکائے

حضور حُسن میں جلوؤں کی کچھ کمی تو

نہیں

کھڑا ہوں دیر سےدامانِ چشم پَھیلائے

شادِ درد میں مضمر شفائے دل ہے وفؔا

کٹی ہے عمر اسی طور دل کو بہلائے

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

کبھی تو دار پہ جھولے کبھی صلیبوں پر

عجیب طور سےجینے کا اہتمام کیا

نہ حرف آئے کبھی میکدہ کی حُرمت پر

کبھی جو بہکےتو ساقی نے بڑھ کر تھام لیا

نِگارخانہ ءِ ہَستی میں شَب کےپَہروں میں

جَلا کے دامن دِل روشنی کو عام کیا

یہ مَئے نہیں ہےاِسے دیکھ نہ حقارت سے

بدن کا خون نچوڑا تو ایک جام کیا

یہ ہونٹ شَل ہوئےنظروں کےتار پَتھرائے

وفؔا کے باب میں کس بےوفا کانام آیا

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

شام ہوتے ہی سورج جو مر جائےگا

رات کے ہَول میں دِل تو ڈر جائےگا

یہ تھکے ہارے پَنچھی تو سب گھر چلے

من کا پاگل پَکھیڑو کِدھر جائے گا

لاج وَنتی رُتوں کا اشارہ ہے یہ

جو قفس کو چلا وہ سن٘ور جائےگا

آؤصَیّاد ڈھونڈھیں چَمن دَرچمن

ورنہ موسم تو الزام دَھر جائے گا

جاگتے ہی یہ آنسو اُمڈ آئیں گے

آنکھ نہ کھول سَپنا بِکھر جائے گا

تُجھ کو کانٹے ملیں گے قدم بہ قدم

آس پھولوں کی لے کر جِدھرجائےگا

سُکھ اُسی کے مقدر کی سوغات ہَیں

غم کے پاتال میں جو اُتر جائے گا

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

ازل کی صبح پہ محشر کی شام چھا جائے

کسی کی یاد بھی کیا سلسلے ملا جائے

چراغ زیست ہَتھیلی پہ لےکہ نکلا ہوں

کہیں کا موجہ ءِصَرصَر اسے بُجھا جائے

تمام عمر نہ دیکھوں یہ عکس محرومی

یہ آنسوؤں کا تلاطم نظر بَہاجائے

دم صبح تو بھٹکتا رہا اُجالوں میں

پڑی ہے شام کوئی راستہ دکھاجائے

بنالیا ہے نشیمن اُسی جگہ پھر سے

کہو فلک سے کہ وہ بجلیاں گِراجائے

وفؔا کی لاش جلی ہے جفا کی آتش میں

بچی ہے راکھ تو وُہ بھی ہَوا اُڑا جائے

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

کوئی صدا بھی نہیں راستہ دکھانے کو

پڑا ہوں دشتِ تمنا میں زخم کھانے کو

ابھی تو پہلا ہی تنکا سجانہ پایا تھا

کہ براق ٹوٹ پڑی آشیاں جلانے کو

بڑے خلوص سے اک رازداں نے لوت لیا

ابھی میں سوچ رہا تھا بھرے زمانےکو

تو دیکھ غیرکے احساں اُٹھانہ ممیرے لئے

کہ تو بہت ھے میری آس کے مٹانے کو

ہُوا ہی کیا جو وفؔا عمر آنسوؤں میں کٹی

اجل کا لمحہ بھی کافی ہے مُسکرانے کو