Jump to content

سرائیکی لوک ادب دے رسالے

وکیپیڈیا توں

سرائیکی لوک ادب دے رسائل وچوں سرائیکی ادبی تحریک دے زیراہتمام "سرائیکی ادب" جیندے ایڈیٹر عمر علی خان بلوچ ہن۔ انہاں نے تحقیقی مضامین اتے مشتمل شمارہ نمبر 2 وچ سرائیکی ادبی تاریخ بارے موضوع وار مضامین شائع کیتے۔ انہاں سارے صنف وار ادبی تاریخ بارے تحقیقی مضامین دی ترتیب کجھ ایں فرحاں ہے۔

  • سرائیکی ادبی تاریخ (ہک پرت)
  • سرائیکی شاعری دے چوڈھاں سو سال
  • سرائیکی ادب دی شاعری
  • سرائیکی صحافت دی تاریخ
  • سرائیکی دے ناول
  • سرائیکی افسانوی مجموعے
  • سرائیکی ادب دے افسانے تے افسانہ نگار
  • سرائیکی ڈرامے
  • سرائیکی وچ طنزو مزاح
  • خواجہ فریدؒ تے سرائیکی ادب
  • غلام حسن حیدرانی (پہلا افسانہ نگار)
  • ظفر لاشاری (ہک عظیم لکھاری)
  • شیما سیال دیاں لکھتاں

سرائیکی ادبی تاریخ / تذکرے دے صنفی اتے شخصی موضوع اُتے مشتمل ایہہ شمارہ 14 اگست 1984ء کوں 19۔بی رائٹرز کالونی ملتان توں چھپیا۔

"سرائیکی ادب دی مختصر تاریخ" ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز دی کتاب ہے جیڑھی جو اپݨی نوعیت دے اعتبار نال پہلی کتاب ہے۔ 464 صفحات دی ایہہ کتاب سرائیکی پبلی کیشنز، مظفر گڑھ دی طرفوں اپریل 1986ء وچ چھپی اے۔ ایں مختصر ادبی تاریخ دے وچ اصناف ادب (لوگ گیت، مرثیہ، لغت، شعری مجموعے، تراجم، قصہ نگاری، ڈرامہ، صحافت، سفر نامہ، قاعدے، سرائیکی لغات، مزاحیہ نثر، ناول، افسانے) دی انچ انچ ونڈ کیتی ڳئی اے۔ ایندے علاوہ ادبی شخصیات دے کوائف اتے اشاریہ وی پیش کیتا ڳئے۔

"وادئ پنجند وچ صحافت" … علامہ محمد اعظم سعیدی دی کتاب ہے۔ جیڑھی، اگست 1985ء وچ سرائیکی اردو رائٹرز گلڈ، کراچی دی طرفوں چھاپی ڳئی ہے۔ جیندے وچ سرائیکی زبان و ادب بارے مضامین اتے ٻیا مواد چھاپݨ والے اخبارات و رسائل بارے تذکرہ کیتا ڳئے۔ جیڑھی جو پہلی واری، اگست 1984ء وچ، سرائیکی، اردو رائٹرز گلڈ آف پاکستان، کراچی دی طرفوں چھاپی ڳئی ہے۔ کتاب دے صفحات دی کل تعداد 96 ہے۔ ایں کتاب وچ وادئ پنجند وچوں چھپݨ والے اخبارات اتے رسائل بارے تحقیقی مواد پیش کیتا ڳئے۔حوالے دی غلطی: Closing </ref> missing for <ref> tag

سرائیکی زبان کے معروف ادیب، دانشور اور کالم نگار محمدالیاس نوناری کی کتابیں

"سرائیکی صحافت دے رنگ" "انیس دین پوری شخصیت و صحافت" سرائیکی وسیب دی ادبی شخصیات "

سرائیکی زبان کے معروف ادیب، دانشور اور کالم نگار محمدالیاس نوناری کا تعلق ضلع وھاڑی کے قصبہ متر وسے ہے۔  وہ نوناری قبلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم  مترو سے حاصل کی اور انٹر کاامتحان انہوں نے وھاڑی پوسٹ گریجوایٹ کالج سے پاس کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہی سرائیکی نثر کا سفر شروع ہوگیا تھا، اپنا ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے دورِ حاضر میں سرائیکی نثر عالمی ادب کے شانہ بشانہ ہے۔ سرائیکی ادب پر نظر دواڑائی جائے تو سرائیکی شعری ادب  پر تو بہت زیادہ  کام ہوا ہے لیکن نثری ادب  پربہت ہی کم کم توجہ دی گئی ہے۔ صرف گنتی کے لوگ ہی ہیں جو اپنی ماں بولی کا حق ادا کر رہے ہیں۔

گزرتے وقت کے ساتھ ہر دور میں کوئی نہ کوئی درخشاں ستارہ ضرور آسماں ادب پر ضرور طلوع ہوتا ہے جو اپنی ماں بولی کا حق ادا کرتا ہے۔ ایسے ہی ایک نام محمد الیا س نوناری کا ہے۔  انہیں شروع سے ہی سرائیکی زبان و ادب سے  محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بی اے  کا امتحان سرائیکی مضمون کے ساتھ پاس کیا اور ایم اے  سرائیکی زبان میں پاس کیا۔ جیسے ہی بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان  نے ایم فل کی کلاسز شروع کیں تو انہوں نے ریگولر ایم فل میں داخلہ لیا۔ ایم فل میں ان کا کا تحقیقی کام  صحافت کے حوالے سے تھا۔ ان کے ٹحقیقی موضوع کا عنوان سرائیکی وسیب اور سرائیکی زبان  کے پہلے کالم نگار میاں انیس دین پوری کے حوالے سے "میاں انیس دین پوری کی ادبی خدمات کا تجزیاتی مطالعہ" تھا۔  

محمد الیاس نوناری کی کتاب :سرائیکی صحافت دے رنگ" سرائیکی زبان اور اس کی صحافتی روایت کے تناظر میں ایک اہم اور منفرد تصنیف ہے۔ یہ کتاب سرائیکی صحافت کی تاریخ، ارتقاء، مسائل، اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے۔ محمد الیاس نوناری نے اس کتاب میں سرائیکی خطے کے سماجی، ثقافتی، اور صحافتی منظرنامے کو مؤثر انداز میں پیش کیا ہے، جو سرائیکی ادب اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے نہایت مفید ہے۔ کتاب کا موضوع سرائیکی صحافت ہے، جو کہ پاکستان کے جنوبی حصے میں بولی جانے والی زبان اور اس کے صحافتی کردار کے گرد گھومتا ہے۔

محمد الیاس نوناری نے سرائیکی صحافت کی تاریخی جڑوں پر روشنی ڈالی ہے، جو اس خطے کی سماجی اور ثقافتی تاریخ سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح سرائیکی صحافت نے برطانوی دور سے لے کر آج تک مختلف ادوار میں اپنی اہمیت کو برقرار رکھا۔ اس میں سرائیکی زبان کے اولین اخبارات، ان کے مدیران، اور ان کے اثرات کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔ کتاب میں سرائیکی ادب، شاعری، اور صحافت کے باہمی تعلق کو بھی بیان کیا گیا ہے، جو سرائیکی صحافت کی انفرادیت کو واضح کرتا ہے۔

محمد الیاس نوناری نے سرائیکی صحافت کے مسائل اور چیلنجز کو بھی بخوبی بیان کیا ہے۔

محمد الیاس نوناری کی یہ تصنیف سرائیکی صحافت اور ادب کے لیے ایک قیمتی اضافہ ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ماضی اور حال کو جوڑتی ہے بلکہ سرائیکی صحافت کے مستقبل کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ الیاس نوناری کا یہ کارنامہ سرائیکی زبان اور صحافت کے عاشقوں کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے، جو اس خطے کی ثقافتی اور ادبی وراثت کو زندہ رکھنے میں مددگار ہوگا۔