Jump to content

ورتݨ آلا:Ahsan Ahmad siyal

وکیپیڈیا توں

پروفیسر حبیب

ادب ہو یا زراعت سر زمین ِ ڈیرہ اسماعیل ہر حوالے سے بہت ذرخیز ہے ۔اس سر زمین نے جہاں غلام محمد قاصرؔ جیسے شاعر پیدا کیے وہیں سعید احمد جیسا ناول نگار بھی جنا, جو اس مٹی کی ذرخیزی کا منہ بولتا ثبو ت ہے۔اسی طرح اگر صنف افسانہ کو دیکھا جائے تو  ماضی اور حال میں بہت سے افسانہ نگار ہمارے سامنے  ہیں جنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں سرزمینِ ڈیرہ کےہر گوشہ ، ہر رنگ،ہر طبقہ اور ہر تہوارسے مختلف کہانیاں بُنیں۔ عصرِ حاضر میں ڈیرہ  اسماعیل خان کے افسانوی ادب میں ایک بہت بڑانام  پروفیسر حبیب موہانہ  بھی ہیں ۔

حبیب موہانہ یکم جنوری ۱۹۶۹ء کو ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن میں مولاداد کے گھر پیدا ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام حبیب الرحمٰن رکھا جبکہ آپ حبیب موہانہ کے قلمی نام سے پہچانے جاتے ہیں۔حبیب موہانہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاوں درابن سے حاصل کی ۔۱۹۸۷ ء میں میٹرک کا امتحان  پاس کیا  اور ۱۹۹۲ ء میں پرائمری سکول ٹیچر کی ملازمت حاصل کرلی ۔ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور ۱۹۹۶ء میں گومل یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔۲۰۰۸ء میں ملازمت میں ترقی پا کر انگلش لیکچرر کے عہدے پر فائز ہو گئے اور تاحال اس پر موجود ہیں ۔

حبیب موہانہ بچپن ہی سے شعر و ادب میں دلچسپی رکھتے تھے اوراپنے زمانہ طالبِ علمی میں بہت سے ناول اورافسانے  پڑھ چکے تھے ۔ اس کے علاوہ اپنے گاوں درابن کی خشک سالی اور معاشی بد حالی بھی ان کے سامنے تھی ۔وہ اپنے لوگوں کو گھونٹ گھونٹ پانی کے لیے ترستا دیکھ رہے  تھے وہاں سات سات نسلوں تک چلنے والی خاندانی دشمنیاں  بھی ان کی آنکھوں کے سامنے تھیں اورغربت کا یہ حال کہ کئی  کئی دن گھروں میں چولہے نہیں جلتے تھے تو ان حالات میں حبیب موہانہ جیساایک حساس انسان کیسے خاموش رہ سکتا تھا اس لیے انہوں نے قلم کو اظہار کا وسیلہ بنایا اور اپنے علاقے کی محرومیوں پر کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔

حبیب موہانہ نے ادبی زندگی کا آغاز ۲۰۰۴ ء سے اپنی مادری زبان سرائیکی میں کہانیاں لکھنے سے کیا ۔ ان کا پہلا سرائیکی ناول "اللہ لہیسی مونجھاں " ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا جس نے ادبی دنیا میں بہت مقبولیت حاصل کی ۔ اس ناول میں دامان کی خوشک سالی کو موضوع بنایا گیا اور غریب طبقے کے مسائل اور ان کی محرومیوں کوتفصیلاًبیان کیا گیا۔۲۰۱۴ء میں حبیب موہانہ کا سرائیکی افسانوی مجموعہ " سیتلاں دے داگ" شائع ہوا اور اسی برس ان کا پہلا اردو افسانوی مجموعہ "ادھوری نیند" بھی شائع ہوا جن کا بنیادی موضوع دیہات کی زندگی اور دامان کے لوگوں کی سختیاں اور پریشانیا ں ہیں ۔

حبیب موہانہ ڈیرہ اسماعیل خان کے پہلے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنے افسانوں میں دیہی زندگی کو بیان کیا ۔دیہات کے انگنت مسئلوں کو اپنے افسانوں کے ذریعے پڑھے لکھے لوگوں کی زندگی کے قریب کیا تاکہ لوگ دیہاتی زندگی کو اپنے ملک کی زندگی کا حصہ سمجھنا شروع کریں ۔

حبیب موہانہ کا تخیلاتی کینوس بہت وسیع ہے وہ کسی ایک رخ پر ٹھہرتے نہیں بلکہ پوری زندگی کا احاطہ کرتے ہیں ۔ ان کی کہانیوں میں دامان کی رسوم و رواج ، وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کے طور اطوار، دیہی زندگی کی سختیاں ، معاشی کمزوری سے جنم لینے والی جان لیوا وبائیں اور فرد کی تنہائی کو ایک بہتر انداز سے پیش کیا گیا۔انکی کہانیاں عام لوگوں کی زندگیوں کی ترجمان ہیں یہ لوگ عمومی طورپر نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ساری زندگی محنت و مشقت کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی سے آگے نہیں بڑھ پاتے  ۔ اسکا اظہار وہ اپنے افسانہ "دامان کا گڑ " میں کچھ اس طرح کرتے ہیں؛

"میٹھی عید آنے میں تین دن باقی تھے ۔ "تھلیاں " کے سب گھروں سے آٹھ آٹھ آنے جمع کر کے ایک  بوری گڑ کے پیسے اکٹھے کئے ۔ صبح سویرے رانجھو کو پیسے دیکر اونٹ پر بٹھا یا اور گڑ لینے درابن روانہ کر دیا۔ عصر کےوقت گاوں کے مرد ،عورتیں اور بچے سب انتظار میں تھے کہ رانجھو اونٹ پر گڑ کی بور ی لائے گا۔۔۔ گڑ کی پاگل کر دینے والی خوشبو پھیل جائے گی۔ رانجھو شام سے پہلے گاوں پہنچ گیا مگر گڑ کے بغیر۔راستے میں کچھ آدمیوں نے اس سے گڑ چھین لیاتھا۔"

ان کے افسانے حزنیہ ہیں اور ان کا اختتام عموماً ٹریجڈی پر ہوتاہے ۔ انھوں نے لمس و لزدیت اور جنس کو موضوع نہیں بنایا بلکہ ان کے کردار بے غرض محبت کرنے والے ہیں۔حبیب موہانہ کا اسلوب ادبِ لطیف کا ایک منفرد نمونہ ہے جو ان کے پیشروں اور ہم عصروں سے منفرد ہے ۔ وہ اپنی کہانیوں میں  تخیلاتی اور تصوراتی فضا کی سیر نہیں کرواتے بلکہ زندگی کی تلخیوں اور ناقابلِ فراموش حقیقتوں کو سامنے لاتے ہیں  خاص طور ر پر اپنے گاوں درابن کی خوش سالی اور قحط کا ذکر اپنے افسانہ "دامان کا گڑ" میں ہی کرتے ہیں ۔

"رات کے وقت چونک میں اکٹھے ہوتے تو گندم ، فصلوں اور پانی کے بجائے اپلوں کے بارے میں باتیں کرتے۔ بہاول الدین نے کہا؛

یار گائیوں کو کیا ہو گیا ہے؟ ہماری گائے صرف دو پیالی دودھ دیتے ہے۔اس  میں گائیوں کا قصور ہی کیا ہے؟ہم انہیں کھانے کے لیے دیتے کیا ہیں کہ وہ ہمیں دودھ کے پیپے دیں ؟اگر دودھ نہیں دیتیں تو کیا ، میں تو کہتا ہوں کہ یہ بھی ان کی مہربانی ہے کہ وہ گوبر دیتی ہیں ۔ آج کل گوبر مل جائے تو بڑی چیز ہے۔ مانجھو بولا؛ ایک زمانے میں میں لوگ گوبر کو گند سمجھ کر پھینک دیتے تھے مگر آج کل یہ بکتا ہے"

حبیب موہانہ غم و اداسی کی تصوریر کشی کا ہنر رکھتے ہیں ۔ وہ صرف کردار کے غم کا اظہار نہیں کرتے بلکہ اس کے غم میں کائنات کے ہر ذرہ اور ہر ذی روح کو شامل کرکے مئوثر کیفیت پیدا کر دیتے ہیں ۔ یہ کردار غوروفکر کرتے ہیں اور انکی غوروفکر اور تمام مباحث کا مرکز محبت ہے۔ لیکن محبت کے موضوع کے اردگرد بہت سے مسائل بھی ہیں ۔ " گونگی قبریں "،" جڑواں  "،" دامان کا گڑ "اور " میری سہیلی  " وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ جبیب موہانہ عصری حالات و واقعات کا بڑی گہرائی سےمشاہدہ کرتے ہیں اور بالکل نئے موضوعات کو اپنی تخلیقات کا حصہ بناتے ہیں ۔ اس حوالے سے ان کے افسانہ " کبڑا " " گوبر گاوں " " گونگی قبریں  " اور " خودکشی " وغیرہ قابل ذکر ہیں جن کے اچھوتے موضوعات قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

اس کےعلاوہ سماج میں  غریب طبقے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں بھی ان کی نگاہ میں تھیں انکے کردار مجبور اور لاچار ہیں جن پر اعلیٰ طبقہ اپنے من چاہے ظلم ڈھا رہا ہے۔اپنےافسانہ "جڑواں " میں لکھتے ہیں؛

"تین سال بعد زینب کو ٹی بی ہو گئی ۔ سسرال والوں نے اُسے میکے بھیج دیا۔ 'جب تک تو ٹھیک نہیں ہوجاتی اپنے میکےرہے گی'سسرال والوں کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ یہ سب بیماری اپنے باپ کے گھر سے لائی تھی ۔ تو وہیی اُسکا علاج کرے ۔"

ایک دوسرے افسانے "تھل " میں لکھتے ہیں؛

"ماسی لگتا ہے تو سٹھیا گئی ہے۔۔۔ آو اسے ختم کریں اور اسکی لاش کسی سوکھے کنویں میں پھینک کر اوپر سے ریت ڈال دیتے ہیں۔ایک نوجوان نے ڈنڈا گھمایا۔'اسے ختم کر دو ،ورنہ یہ روزانہ ہمارے لیے دردِ سر بنا رہے گا۔ 'اللہ وسایا کے بیٹے نے چمکتی کلھاڑی سے ریت پر وار کیا۔"

حبیب موہانہ پچھلے کئی سالوں سے ڈیرہ اسماعیل شہر میں مقیم ہیں لیکن دامان کی مٹی سے اپنا تعلق آج بھی جوڑے ہوئے ہیں ۔حبیب موہانہ تین زبانوں (اردو، انگریزی ،سرائیکی ) میں کہانیاں لکھ رہے ہیں اور تینوں زبانوں میں دیہی ثقافت کو خوش اسلوبی سے بیان کر رہے ہیں۔  

(احسان احمد سیال، گوشہ خیال،روزنامہ اعتدال،21 دسمبر 2020)