سرور کربلائی

وکیپیڈیا توں

سرور کربلائی ، "سرور اقلیم سرائیکی"، "سلیمان سبائے مشاعرہ" ، "مجتہد الشعراء" سرائیکی زبان دا با کمال تے مہان مزاحمتی شاعر ہے۔ جئیں سرائیکی غزل تے شاعری کوں نواں اسلوب تے نویں استعاریں نال مزین کیتے۔ سرور خان کربلائ ڈیرہ غازی خان شہر دے بانی “ نواب غازی خان میرانی دودائی “ دی اولاد وچوں ہن،،مہان سرائیکی شاعر سئیں عزیز شاہد وی سرور خان کربلائ دے شاگرد ہِن۔

تعارف[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

ناں :۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔نوابزادہ  غلام سرور خان

جگ مشہور ناں :۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔سرور کربلائی

والد دا ناں  :۔۔۔۔ نوابزادہ شاہ محمد خان

جمنڑ  دی تاریخ :۔۔۔۔۔۔۔۔4 اپریل 1938ء

جمنڑ دی جاہ :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھنگ شہر

قوم :۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلوچ میرانی دودائی

تعلیم :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مڈل ،جے وی۔

آغاز شاعری :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1958ء

استاد شاعری :۔۔۔ارشاد حسین نذر جھنڈھیر جانباز جتوئی کوں احتراما" استاد آہدے ہن

پیشہ :۔۔۔مدرس، ریٹائرڈ ہووݨ دے بعد وثیقہ نویسی

سکونت :۔۔۔۔ وستی ریکڑہ،ڈیرہ غازی خان

      91 بی۔ خیابان سرور۔ ڈیرہ غازی خان

پُتریں دے ناں  :۔۔۔۔۔۔نوابزادہ اُشتر عباس خان ،نوابزادہ ابوذر عمران خان ،نوابزادہ عمار یاسرخان

دھی داناں  :۔۔۔۔ معصومہ نرجس کربلائی

کتاباں[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

سِجھ دا سِینہ(اکادمی ادبیات، خواجہ فریدایوارڈ) ،نغمے نوک سنان دے

( سرور کربلائ نمبر”ماہنامہ اختر ملتان ، جولائ 1969ء) The Legend of Seraiki سرور کربلائی، فن تے شخصیت لکھاری سید مالک اشتر

وفات[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

وفات :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔20 جولائی 2003ء

مقام وفات :۔۔۔۔۔فورٹ منرو( ڈیرہ غازی خان ) پہلی واری ہارٹ اٹیک تھیا تے جانبر نہ تھی سگے۔

شخصیت پر مضامین[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

      " سرور کربلائی "
      "شخصیت اور فن
     نقد و نذر کی ترازو میں"
          (سید محسن نقوی)

میں اپنی اس تحریر کے ہر لفظ کو سرائیکی زبان کے مجتہد شاعر جناب سرور کربلائی کے مزاج کی ریشمیت کی نذر کرتا ہوں۔ امید ہے کہ وہ شاعر خوش بخت میری اس پریشان خیالی اور تلخ نوائی کو قبول کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرے گا

             ( محسن نقوی )

1۔بحوالہ ماہ نامہ"اختر"(سرور کربلائی نمبر) سرائیکی۔ملتان جولائی 1969

2۔ The Legend of Seraiki" , سرور کربلائی فن تے شخصیت" سید مالک اشتر، جھوک پبلشرز، ملتان


    " سرور ایک حساس فنکار"

مجھے تاریخ یاد نہیں البتہ اتنا یاد ہے کہ گرمیوں ایک رات جب چاندنی پوری کائنات کے مرمریں جسم پر ایرانی محبوب کے آنچل کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ ڈیرہ غازی خان کے کمپنی باغ کا شاداب سبزہ راہگوار مہتاب کے دودھیا غبار میں لپٹا ہوا تھا۔ رات کی دیوی کونین کی زمردیں انگڑائیوں پر شبنمی موتی نچھاور کر رہی تھی۔ پریس کلب کے سامنے بے شمار لوگ آپس میں مصروف گفتگو تھے۔ اسی پریس کلب میں شہر کی بزم فرید کے زیر اہتمام ایک مخلوط مشاعرہ تھا جس میں اردو اور سرائیکی شعرا شریک تھے میں خود ان دنوں شعر کہا نہیں کرتا تھا۔ بلکہ صرف ایک مبتدی سخن فہم کی حیثیت سے وہ اشعار جو مجھے پسند ہوتے اپنی ایک رف کاپی میں نوٹ کیا کرتا تھا۔ میری عادت تھی کہ شہر میں جہاں بھی مشاعرہ ہوتا میں اپنی اس سلیقہ شعار کاپی سمیت مشاعرہ گاہ میں پروگرام ہونے سے بہت پہلے جا پہنچتا اور مشاعرہ گاہ کے کسی کونے میں بیٹھ کر آنے والوں کے چہرے پڑھا کرتا تھا۔ حافظہ شاہد ہے کہ اس مشاعرے کی صدارت کے فرائض خان فیض احمد خان جسکانی (ایڈوکیٹ) کے ذمہ تھے اور غالبا" سٹیج سیکرٹری فیاض حیدری تھے۔ پریس کلب میں سامعین کی تعداد معمول سے کچھ زیادہ ہی تھی، مشاعرہ شروع ہوا شاعر آتے گئے، غزلیں سنی جاتی رہیں، اچھے شعروں پر داد کے ڈونگرے برستے رہے۔ اور بعض ڈالڈا شاعروں پر ہوٹنگ کی بجلیاں ٹوٹتی رہیں۔ مشاعرہ شروع ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی لوگ کچھ بور ہونے لگے تھے، کیونکہ جہاں منتظم مشاعرہ سے سٹیج سیکرٹری کی بنائی ہوئی فہرست تک میں جہالت کار فرما ہو وہاں سامعین یا صدر مشاعرہ کو اپنے آپ پر بہت غصہ ایا کرتا ہے۔ چنانچہ اس مشاعرے کا بھی یہی حال تھا رفتہ رفتہ مشاعرہ بگڑنے لگا، ہوٹنگ مختلف اوازوں کے اتار چڑھاؤ سے ہوتی ہوئی گالی گلوچ اور خرافات تک پہنچ گئی۔ اور پھر ایک کہرام برپا ہو گیا سامعین کا اصرار تھا کہ بڑے شاعروں سے پڑھوایا جائے، اچانک سٹیج سیکرٹری کو کسی ذہین آدمی نے مشورہ دیا کہ سرور کربلائی کا نام پکار دو، فیاض حیدری نے سرور کربلائی کو سٹیج پر بلایا تو مجمع ایک دم ساکت ہو گیا۔ میں نے چونک کر سامنے دیکھا تو مائک پر ایک ایسا شاعر کھڑا تھا جس کی پیشانی سودا کے قصیدے کی طرح صاف اور شفاف تھی۔ آنکھیں داغ کے اشعار کی مانند چھبتی ہوئی مگر شوخ، ناک سہل ممتنع، جسم حسرت کا نحیف مصرعہ، قد فانی کے معتدل کلام کا چربہ اور بال عدم کے اشعار کی صورت بکھرے ہوئے، لباس عامیانہ، وضع شاعرانہ، انداز فقیرانہ اور مزاج شاہانہ۔

          یہ تھا سرائکی زبان کا مجتہد شاعر سرور کربلائی، جسے میں نے پہلی بار دیکھ کر یہ تاثر لیا تھا کہ وہ فطرت کی فضول خرچی کا نتیجہ ہے، مگر جب اس نے شعر پڑھنے شروع کیے تو مجھے اپنی رائے بدلنا پڑی، یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کی آواز سے تمام مشاعرہ زلزلا گیا ہے۔ وہ لوگ جو ابھی ہوٹنگ کے موڈ میں تھے اب ہمہ تن گوش بن کر سراپا داد میں تبدیل ہو رہے تھے۔ مختصر سے جسم والا کربلائی اپنے باوقار لہجے میں ایک اچھوتی نظم پڑھ رہا تھا نظم کا عنوان تھا "فنکار" اور شروع کچھ اس طرح ہوتی تھی 

میں فن کار ہاں اپنا فن پیا وچینداں بے درد و متاع وطن پیا وچینداں ایہو چند دا چانن تے چمکیلے تارے

تے فردوس ہستی دے رنگین نظارے
ایں کون اے فنا دے گلستان سارے 

کلی پھل تھے مخمور غنچے پیارے

چمن دا حسین بانک پن پیا وچینداں میں فنکار ہاں اپنا فن پیا وچینداں 
          سرائکی نظم پہلی مرتبہ اردو لب و لہجے میں ڈھل رہی تھی۔ موضوع ساحرانہ تھا اور انداز غالبانہ۔ نظم کا ایک ایک مصرع معاشرے کی خود پیدا کردہ تخصیص پر بھرپور طنز تھا۔ سماج کے رستے ہوئے ناسور اور جدید سوسائٹی کی فکری تقسیم پر شاعر بڑے دل نشین اور خطیبانہ انداز میں مصروف کلام تھا۔ جاگیرداری نظام کے خلاف سرائکی شاعری میں پہلا احتجاج سامعین کو چونکا کر رہ گیا۔
             میں نے سرور کو پہلی بار سنا تھا۔ بڑا عظیم شاعر ہے بڑا حساس فنکار ہے جو معاشرے کی نا انصافیوں سے تنگ آ کر اپنا فن اپنا سرمایہ حیات اور متاع عزیز بازار میں لے آیا ہے۔ میں بڑبڑاتا رہا، پورا ماحول سراپا درد بن گیا تھا۔ اس کے کلام میں جذبات و محسوسات کا سوز اپنے مکمل اعتماد سے جلوہ گر تھا۔ اشعار میں تفکر و تخیل کے شعلے لہرا رہے تھے۔ ہر بند کے ہر لفظ سے شعور و ادراک کا بانکپن ٹپکا پڑتا تھا۔ اور وہ لوگوں کی داد سے بے نیاز ہو کر بڑے باوقار انداز میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہے جا رہا تھا۔
میں تنگ تھی کے قادر دی تقدیر ساری تے لوح مقدس دی تحریر ساری
اوں مخفی حقیقت دی تفسیر ساری
اوں خالق دی تخلیقی جاگیر ساری
نظام زمین و زمن پیا وچینداں 

میں فنکار ہاں اپنا فن پیا وچینداں

      دیکھیے ظالم کا انداز کیا تھا کہ "اپنے خالق کی تقدیر، اپنے مقدر کی تحریر، ہر راز پنہاں کی تفسیر اور شاعر کی تخلیقی جاگیر یعنی فن جو فنکار کے لیے زمین بھی ہے اور اسمان بھی سب سب کو کچھ بیچنا چاہتا ہوں۔"
         اب اس نے نظم کے اگلے بند میں ایک زبردست شرط رکھی ہے کہ۔
مگر اج تو کہیں دی محبت نہ وکے غریباں دی بد نام راحت نہ وکے
بازاراں دے وچ ساڈی عصمت نہ وکے غیوراں دی مجبور غیرت نہ وکے
میڈا سارا سرور تساں مال چاہو
میڈی قوم بکھی ہے روٹی کھواو
         مشاعرہ ختم ہو گیا، لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے، میں بھی خاموش، مطمئن مگر قدر مضطرب اپنے گھر کو روانہ ہوا۔ میں اس روز صرف تین بند (جو میں نے ابھی لکھے ہیں) ہی نوٹ کر سکا، میں فاصلے عبور کرتا رہا، میرے ذہن میں یہ شعر بار بار گردش کرتا رہا۔
میڈا سارا سرور تساں مال چاو
میڈی قوم بھکی ہے روٹی کھواو
      اس کے بعد سرور کربلائی میرے وجدان پر چھاتا چلا گیا۔ اس کی آواز ہمیشہ میرے کانوں میں گردش کرتی رہی۔ اس کا فن میرے لاشعور میں اپنے لیے ایک خاص مقام پیدا کر چکا تھا۔
         وہ چپ چاپ اپنا فن بیچتا رہا اپنی قوم کی بھوک کا علاج ڈھونڈتا رہا اور اب بھی اسے اپنی قوم کے زخم اپنے جسم میں محسوس ہوتے ہیں۔ وہ اب بھی پورے معاشرے کے غیر منصفانہ سلوک کے خلاف سرائیکی شاعری میں احتجاج کی علامت بنا ہوا ہے۔ سرور کربلائی کی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہے جن میں خون کی بجائے خلوص گردش کر رہا ہے۔
     سرور ایک حساس فنکار ہے، وہ گوتم سے بھی زیادہ حساس ہے، وہ سوچتا ہے، ہر وقت اپنی سوچ کے گہرے ساگر میں ڈوبا رہنا اس کا مشغلہ بن چکا ہے۔ دراصل شاعری یا کوئی فن کسی فنکار کی تخلیقی قوتوں کا مظہر ہوا کرتی ہے۔ فن، فنکار کے کردار کا عکس ہوا کرتا ہے۔ جس تخلیق میں خالق کا سراپا صاف طور سے دکھائی نہ دے سمجھ لیجئے خالق یا فنکار اپنا فن سے مخلص نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ فنکار کی کوئی تخلیق اس کے ذاتی رحجان کے بالکل برعکس ہوتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ فنکار کو جذبات کے اظہار کا سلیقہ نہیں، بلکہ ایسی تخلیق اس کے ذہنی تضاد پر دلالت کرتی ہے، البتہ فن کے آئینہ خانے میں دھندلی صورتوں کے نقوش سے نتیجہ اخذ کرنے والا فنکار اپنی ذات کو پہچاننے میں دقت محسوس کرتا ہے۔
           سرور کربلائی کا فن بھی اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہے اور وہ خود اپنے فن کا مزاج آشنا،  وہ نہ تو دھندلی صورتوں کو اجالنے کا عادی ہے اور نہ ابھرے ہوئے نقوش کو بگاڑنے کا، وہ ایک سمندر ہے جس کی تہ میں پڑے ہوئے موتی صاف نظر ا جاتے ہیں، وہ ایک جھیل کا شفاف پانی ہے جس پر جس کے کنارے پر اگے ہوئے کنول جھک جھک کر اسے سلام کرتے ہیں۔


     (  "سرور کون ہے؟" )


اج کے اس دور میں جبکہ شرافت عنقا ہو چکی ہے۔ نجابت کے ماتھے پر رسوائی کے بے شمار داغ چمک رہے ہیں۔ معصومیت کا آنچل مخالف ہواؤں کی زد میں ہے۔ اور خلوص گریبان وفا کے مانند تار تار ہو چکا ہے۔ ضرورت ہے کہ فنکار اپنے صحیح مقام کو پہچانتے ہوئے عظمت آدم کا علم بلند کرے، اور بہت کم لوگ ایسے موجود بھی ہیں جنہیں اپنے رشتوں سے اپنا فن اور اپنی عظمت زیادہ عزیز ہیں۔

           سرور کربلائی بھی انہیں مخلص فنکاروں میں سے ایک ہے۔ جو ریا اور فریب کی جھوٹی گھٹاؤں میں آفتاب منور کی طرح چمک رہا ہے اور چمکتا رہے گا۔ میں نے ایک بار اس سے سوال کیا کہ تم کون ہو؟ وہ نہایت سادگی سے کہنے لگا 
         "آدمیت کی سلطنت کا اجڑا ہوا شہزادہ ہوں، انسانیت کی بوسیدہ ردا کا علم اپنے کمزور ہاتھوں میں تھامے بے وفا زمانے کے خاک و خون میں لتھڑی ہوئی راہ گزر پر نہایت تمکنت کے ساتھ چل رہا ہوں۔"
            اور واقعی وہ آدمیت کی سلطنت کا اجڑا ہوا شہزادہ ہے۔ میں نے پوچھا کچھ اپنے متعلق بتاؤ۔ جواب دیا، 
              "انکشاف حقیقت پر صرف شرماتا ہی نہیں ہوں گھبرا بھی جاتا ہوں۔ ایک عرصہ سے میرا خاندان گمنامی کے دبیز پردوں میں مستور چلا آتا ہے،  ہم لوگ مالی لحاظ سے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کم ظرف لوگ ہمارے معاشی مقام سے ہماری خاندانی عظمت کا موازنہ کرتے ہیں۔ محسن بھائی، کون اعتبار کرتا ہے کہ میں ایک ایسے خاندان کا نجیب الطرفین فرد ہوں جس نے ساڑھے تین سو سال تک ڈیرہ غازی خان کی سرزمین پر حکومت کی ہے۔ کیونکہ اکثر لوگوں کا اپنا حدود اربع نا گفتنی ہوتا ہے لہذا وہ شرفا کی عظمت کو اپنے چھوٹے سے ذہن کی ترازو میں تولنا چاہتے ہیں۔ اج کے انسان کی نظر میں رئیس کے فرزند کا رئیس ہونا ضروری ہے۔ بہر صورت میری مالی حیثیت کچھ ہو، مجھے اج کی سوسائٹی کے ٹھیکے دار جس نظر سے دیکھیں، مجھے اپنے اسلاف اور ان کی درخشندہ تاریخ کے احمریں اوراق پر فخر ہے۔ میں جہانگیر نہ سہی، جہاں زیب ضرور ہوں۔ میں سکندر نہیں قلندر تو ہوں۔ جب بھی اپنے اسلاف کا احوال سنتا ہوں تو میرا سر غیر ارادی طور پر اونچا ہو جاتا ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نان شبینہ کا محتاج ہوں، لیکن ساتھ ہی یہ فخر بھی ہے کہ میرے اجداد اپنے دور کے حاکم تھے۔ مجھے اپنے نشیمن کے لیے چند تنکے میسر نہیں تو کیا ہوا، میرے آباؤ اجداد تو کسر امارت میں مسند آرا رہے ہیں۔ مختصرا" یوں سمجھ لو کہ میں اس داستان پارینہ  کا اخری باب ہوں جس کا ابتدائیہ بلوچوں کا قابل افتخار رجل عظیم "غازی خان" تھا"۔
      یہاں پہنچ کر سرور کی انکھوں میں ایک نادیدہ اور مبہم سی چمک پیدا ہوئی، اور بعد میں یہی چمک انسوؤں کی شکل میں اس کی پتھرائی ہوئی انکھوں کے خشک سوتوں سے پھوٹ نکلی۔ دراصل وہ فنکار ہے، وہ شاعر ہے۔ اس کا دل انتہائی نرم اور لطیف شیشے سے بھی زیادہ نازک ہے۔ میں نے محسوس کر لیا تھا کہ اس کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ وہ شیشہ ایک بار پھر چکنا چور ہو چکا ہے، جسے وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا ہے۔ وہ معاشرے کے غیر منصفانہ سلوک پر بھرپور طنز کر رہا تھا۔ اور میں اس کے ایک ایک لفظ میں بے شمار دھڑکتے ہوئے دلوں کی کراہیں سن رہا تھا۔
            تاریخی لحاظ سے سرور کربلائی کا شجرہ نسب حلب و سیستان کے حکمران "میر بھونگا" سے ملتا ہے۔ ایک عرصہ تک اس کا خاندان      "میر بھونگا" کے نامور فرزند "میر دودہ" کی وجہ سے دودائی  چلا آتا ہے۔ "میر دودہ" کے پوتے اور "میر مندو" کے نامور فرزند "حاجی خان" اول نے وسطی وادی سندھ میں اپنے خاندان کی حکومت کی داغ بیل ڈالی، اور دریائے سندھ کے غربی کنارے پر ایک شاندار شہر کی بنیاد ڈالی۔ میر حاجی خان کی وفات کے بعد اس کا فرزند عظیم "غازی خان" اس کا جانشین ٹھہرا۔ جس نے شہر کو توسیع دے کر اپنے نام سے منسوب کر لیا۔ نیز شہر میں نو لکھا نامی ایک ثمردار باغ بھی لگوایا، جس میں انواع و اقسام کے درخت اور پودے بھی تھے۔ خان والی مسجد اور شاہی قلعہ تعمیر کرایا۔ یہ عمارات فن تعمیر کے لحاظ سے اپنے وقت کے نوادرات میں شامل تھیں۔ متعدد نہریں کھدوائیں جن میں سے کستوری نہر ابھی تک ضلع ڈیرہ غازی خان کے اندر اپنی پہلی حالت میں موجود ہے۔ نواب غازی خان نے بزور شمشیر اپنی سلطنت کو ملتان، مظفرگڑھ، میانوالی اور جھنگ تک وسیع کر لیا نواب غازی خان اول کے بعد 14 سردار یکے بعد دیگرے "غازی خان" کے نام سے سریر آرائئے سلطنت ہوئے۔ ان نوابوں کی دلیرانہ صفات کے قصے اج بھی سنگ و خشت کی ہتھیلیوں پر تحریر ہیں۔ خصوصا ضلع ڈیرہ غازی خان کے برسر اقتدار خاندانوں کی موروثی عظمت میرانیوں (غازی خان کی اولاد) کی مرہون منت ہے۔ تاریخ روسائے پنجاب، جلد دوم مطبوعہ 1911 اور دیگر متعدد تاریخی کتب میں میرانیوں کے عہد اقتدار کو امن اور خوشحالی کا زمانہ قرار دیا گیا ہے۔ راعی اپنی رعایا پر مہربان تھے اور رعایا اپنے فیاض حکمرانوں کے بخت کو ڈھلتے سورج کی آخری کرن تک دعائیں دیتی تھی۔
            سرور کے آبا و اجداد نے اپنے عہد اقتدار میں دم توڑتی تاریخ کو اپنے گرم خون کے چھینٹوں سے سرخرو کیا ہے۔ وہ لوگ تاریخ کے ممنون نہ تھے بلکہ تاریخ کو ان کا مرہون منت ہونا پڑا۔ ڈیرہ غازی خان کا وسیع شہر اور اس کا نام اپنے عظیم بانی کا نام اپنے ماتھے پر جھومر کی طرح سجائے ہوئے ہے۔ اس طرح خاندان کے دوسرے ذمہ دار افراد نے بھی اپنے ناموں کو زندہ رکھنے کے لیے مختلف شہروں اور قصبوں کو اپنے نام سے منسوب کر لیا۔ مثلا"  "گدائی خان" نے قصبہ گدائی ضلع ڈیرہ غازی خان "کمال خان" نے شہر لیہ اور "ادو خان" نے کوٹ ادو اباد کیے۔ سلطان خان نے کوٹ سلطان کی بنیاد رکھی۔ اور "اسماعیل خان" نے ڈیرہ اسماعیل خان کا وسیع شہر اباد کیا۔ اور "فتح خان" نے فتح خان قصبہ اباد کیا۔ مقبرہ غازی خان کی تعمیر غازی خان اول اور "حضرت پیر عادل"  ڈیرہ غازی خان کا مزار "غازی خان" چہارم کے ذوق تعمیر کا فنی شاہکار ہے۔ اس خاندان کا اقتدار  "غازی خان ہشتم" سے زوال پذیر ہوا۔ یعنی جب غازی خان ہشتم اپنے نمک حرام وزیر اور تالیف کی غداری کا نشانہ بنا، تو سندھ کے کلہوڑوں نے غازی خان کی سلطنت پر حملہ کر دیا اور اس 11 سالہ، میررانی شہزادے کی عظمت شکست افزا موت کے غار میں دفن ہو گئی۔ اور ساتھ ہی سرور کربلائی کا خاندان انقلاب زمانہ کی نظر ہو گیا۔
            "سرور کربلائی" کی پیدائش جھنگ شہر کے محلہ دورٹہ میں چار نومبر 1938 کو ننھیال میں ہوئی۔ ان دنوں سرور کربلائی کے والد کا بسلسلہ ملازمت وہاں پر سکونت پذیر تھے۔ سرور اپنے والدین کی اخری اولاد ہے۔ چھٹی جماعت تک جھنگ میں تعلیم حاصل کی پھر یہ لوگ ڈیرہ غازی خان کے قصبہ مہتم میں آباد ہوئے۔ جہاں سرور نے اپنی تعلیم جاری رکھی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ یہ غالبا 1953 کی بات ہے۔ پھر 1956،1957 میں معلمی کی تربیت حاصل کی،  اور 1958 سے اب تک محکمہ تعلیم میں قوم کے نو نہالوں کی ذہنی تعمیر کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ 
         میں نے سرور کربلائی سے بارہا پوچھا ہے کہ اپنے بچپن کا کوئی یادگار واقعہ سناؤ۔ لیکن طرح دے جاتا ہے۔ اور اس نے مجھے کبھی بھی اپنی زندگی کا کوئی واقعہ بالتفصیل نہیں سنایا۔ البتہ اس بات کا اسے دکھ ہے ہے کہ جس ماحول میں اس کی پرورش ہوئی وہ قطعی اس کی ذہنی خواہشات کے مطابق نہیں تھا۔ وجہ فی الحقیقت یہ ہے کہ اس کے خاندان کے دوسرے افراد کے ذہن میں نوابی جنون انگڑائیاں لے رہا تھا، مگر سرور ایک درویش منش باپ کا خوددار اور بے نیاز فرزند تھا۔ اس لیے ذہنی فاصلہ اسے اعزاو اقرباء سے ہمیشہ دور کرتا رہا، اور وہ کبھی بھی اپنے عزیزوں سے کھل کر بات نہ کر سکا۔ اسے اپنے اساتذہ میں سے حاجی الہی بخش صاحب سے انتہائی عقیدت ہے۔ وہ ان کا نام اج بھی عزت و احترام کے ساتھ لیتا ہے۔ اور اسے اس بات کا اعتراف ہے کہ حاجی صاحب نے اس کی ذہنی پرورش میں والدین سے بھی زیادہ محنت کی ہے۔


 "غلام سرور سے سرور کربلائی تک"


      فطرت جس فنکار کو عظیم بنانا چاہتی ہے اسے بچپن ہی سے عظمت کا احساس بھی عطا کر دیتی ہے۔ یہی حادثہ سرور صاحب کے ساتھ بھی پیش ایا ہے اسے قطعا" یاد نہیں کہ وہ شاعر کیسے بنا اور کب بنا،  ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس نے پہلی کافی 1958 میں کہی تھی جس کا مطلع اس مصرع سے شروع ہوتا ہے۔
     قاصد توں ونجیں کیچ، ڈیویں خان کوں حال اے
      اس کی یہی پہلی کافی بھی اسے غلام سرور سے سرور کربلائی بنانے میں کافی تھی۔ میرا اپنا خیال ہے کہ سرور کی شاعری کا سب سے بڑا محرک اس کا قوی احساس ہے۔ وہ فطرت کی طرف سے ایک ٹوٹا ہوا دل لے کر آیا تھا۔ جس میں خواہشات کا ایک سمندر موجزن تھا، وہ اپنی اواز کسی گمنام اور کبھی نظر نہ انے والی روحی تک پہنچانا چاہتا تھا، وہ اپنے افکار کسی سلمی یا عذرا کی بارگاہ میں بے صرفہ لٹانا چاہتا تھا۔ اس نے زندگی کے راستے میں بے پناہ اندھیرے دیکھے تو چونک گیا، اس نے معاشرے میں بے شمار چیخیں ایک دم سنی تو اس کا احساس لرز اٹھا۔ اس کے پاس فکر اور جذبے کی دولت تھی اس نے یہی دو خزانے جذبات کے بازار میں لٹائے، لٹائے نہیں، بلکہ کلام و قرطاس میں تقسیم کر دی ہے اور خود فن کی بارگاہ میں ایک قیس کی صورت میں پیش ہوا۔ جہاں تک اس کے ماحول کا تعلق ہے وہ قطعا" اسے بحیثیت ایک شاعر، ایک فنکار قبول نہیں کر سکتا تھا، بلکہ وہ معاشرہ جس میں سرور نے انکھ کھولی، وہ سماج جس میں اس نے انگڑائی لی، اس کے شاعرانہ احساس کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتا تھا، اس کے معاشرے میں شاعر ہونا ایک قاتل اور مجرم سے زیادہ خطرناک ہونے کے مترادف تھا، یہی وجہ تھی کہ اس نے ایک عرصہ تک جرات اظہار کے باوجود اپنے کلام کو اپنے معاشرے کے ٹھیکے داروں کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھا، کوئی فرد بھی تو نہیں تھا جو اس کے افکار کو ارجمند سمجھتا یا اس کے کلام کو درخور اعتنا سمجھ کر اس کی حوصلہ افزائی کرتا، یہ المیہ صرف اس کے ساتھ ہی پیش نہیں آیا بلکہ بے شمار ایسے فنکار موجود ہیں جو ایک سازگار ماحول نہ ہونے کی وجہ سے اپنے وجدان کی جلتی سلگتی چتاوں میں گھٹ کے مر جاتے ہیں،  لیکن وہ ایک جرات مند اور دلیر فنکار تھا اس کے دل میں فن کا جو آتش فشاں خاموش تھا،  وہ ایک دم پھٹ پڑا اور اس نے کسی انتقام کی پرواہ کیے بغیر اپنے جذبات کا اظہار کر دیا۔

سنڑانواں درد کیا دل دے میں ہک مجنون شاعر ہاں۔ وفا خوردہ جفا لٹیا نظر مفتون شاعر ہاں۔ میکوں سرور زمانے خون دیاں ہنجوں رونوایاں ہن میں بے درداں دی دنیا دا ستم مسنون شاعر ہاں

       " میں ایک دیوانہ اور پاگل شاعر ہوں وفا میرا آئین ہے اور جفائے یار یا جفائے زمانہ نے مجھے لوٹ لیا ہے،  میری انکھ بھی فتنہ پرور ہے، یعنی میری نگاہیں بھی پاگل ہو گئی ہیں، اف رے سرور، مجھے تو زمانے نے خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیا پھر بھی میں اس معاشرے اور بے درد ماحول کے آلام پر شکر گزار ہوں اور ممنون ہوں ان لوگوں کا جو مجھے درد کے کبھی نہ ختم ہونے والے جنگل میں بھٹکتا چھوڑ گئے۔"دیکھیے اپنے متعلق وہ خود کیا کہتا ہے۔

میڈا عین شباب ضعیفی وچ محبوب میڈے ہا ڈھا لیا۔ تاہیں سکھ دے لحظے لحظے کوں سئیں نوٹ اکھیں ہم گالیا۔ گستاخی ھے جے عرض کراں کیویں جگ جیندا ہم جالیا۔ میں او بے نور چراغ ہاں سرور جیکوں سئیں ھے فجر کوں بالیا۔

اس بند کا آخری مصرعہ ایک مرتبہ پھر پڑھئے۔

میں او بے نور چراغ ہاں سرور، جیکوں سئیں ھے فجر کوں بالیا

اس مصرے میں جو شاعرانہ لطافت پنہاں ہے اس کا جواب کبھی پیدا ہی نہیں ہو سکتا، اور یہی خوبیاں تھی جو اسے بہت جلد سرائیکی ادب کے عرش اعظم پر جلوہ فگن ہونا میں مدد دے گئیں۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ سرور کربلائی اپنی آواز ایک ان دیکھے محبوب ایک انجانی روحی، غیر مرئی حسن تک پہنچانا چاہتا ہے، وہ خوابوں کا شاعر ہے، وہ خیالوں کے تاج محل کا باسی ہے، وہ وجدانی ایات کو صفحہ قرطاس پر لکھ لیتا ہے، اس کا محبوب اسی کے خیالوں میں بسنے والا فطرت کا ایک نادر شاہکار ہے، جو اس کی برباد حسرتوں کے لہو سے اپنا شیش محل تعمیر کرتا ہے، مگر سرور اپنی حسرتوں کے اس انجام پر بھی چیں بہ جبیں نہیں ہوتا اور اپنے محبوب کی تمکنت، غرور اور ناز و ادا پر مسکراتے ہوئے کہہ اٹھتا ہے۔

بھلا تھیوس رنج تھی پئے، سچ آکھنڑ محض گناہ تھی گئے میڈیاں سوز دیاں آہیں جھل جھل کے ،توڑے فلک سفید سیاہ تھی گئے بھل اج تئیں ڈھول نئیں غور کیتا ،میڈے کیتے کون تباہ تھی گئے ساڈے سرور ہتھ وچ ڈے کاسے، سئیں شکر ھے آپ تے شاہ تھی گئے

         وہ آہستہ آہستہ زمانے کے رنج و آلام سے بے خبر اور بے نیاز ہوتا چلا گیا۔ غالب نے کہا تھا۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج 

مشکلیں مجھ پر پڑی اتنی کہ آساں ہو گئیں

      سرور بھی کہہ اٹھا
دل وحشی کوں وحشت وچ نی رہ گئے ہوش جہاں دے
ہک غم نی بھلیا، بھل گیا ہے احسان سبھے سجناں دے 

حد ٹپ گئے بے پرواہی دی دکھ یاد نسی ہجراں دے

اج تا آپ دے قرب کنوں، وی سرور بہوں گھبراندے
     سرور کربلائی کی شاعری نے چونکہ سرائکی زبان کو ایک نیا لب و لہجہ عطا کیا ہے، اس لیے ہر فنکار جو اس زمانے میں سرائکی اغوش میں جنم لے رہا تھا،  اسے سرور کی تقلید کرنا پڑی اور سرور بہت جلد سرائکی کا مجتہد شاعر بن گیا۔
    سرور۔۔۔۔۔۔ایک مجتہد شاعر 
      میں نے گزشتہ باب میں ایک فقرہ لکھا ہے کہ سرور ایک مجتہد شاعر ہے جب پہلی بار میں نے اختر میں اس کی ایک نظم سسڑی کی اشاعت سے پہلے اس سے سرائکی زبان کا ایک مجتہد شاعر لکھا تو بہت سے چہروں کا رنگ اڑنے لگا تھا اور بہت سے ماتھوں پر غم و غصہ کی لکیریں تو باہر آئی تھیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سرور کربلائی سے پہلے سرائکی شاعری صرف ایک گھسے پٹے موضوع کے گرد گھوم رہی تھی وہی سسی کی روایتی پردہ پوشی وہی غم جانا کارنا اور وہی اپنے دیہاتی محبوب سے مخاطب ہونے کا گھٹیا سا انداز نتیجہ ظاہر ہے کہ کسی بھی زبان کے سامنے سرائی کی شاعری دم نہ مار سکتی تھی اور یہ بات اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ یار لوگوں نے سرائکی زبان کے وجود سے انکار کرنا شروع کر دیا ہر زبان کچھ نہ کچھ عرصے کے بعد تغیر چاہتی ہے ہر زبان کے الفاظ پر لڑکپن جوانی اور بڑھاپہ اتے ہیں اور الفاظ کی عمر جب ڈھل جائے تو اپنے صحیح مفہوم ادا کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں عربی زبان کو دیکھیے امراء القیس کے وقت سے لے کر اب تک کتنے انقلابات کی زد میں ائی فارسی مولانا روم سعدی شیرازی، فردوسی اور حافظ ہوتی ہوئی اج تک پہنچ گئی ہے اور اج کی فارسی قدیم فارسی زبان سے قطعا مختلف ہے انگریزی میں شیکسپیئر کی زبان اج بر ٹرینڈ رسل سے بالکل نہیں ملتی اردو کی طرف ائیے ولی دکنی کی زبان بھیج دیکھی ہے اور پھر اج جوش فیض قاسمی اور فراق کا کلام بھی ملاحظہ فرمائیے زمین و اسمان کا فرق ہے لیکن سرائکی زبان سالہا سال تک کوئی نیا پیراہن تبدیل نہ کر سکی لطف علی نے اس میں کچھ تبدیلیاں کی مگر پھر زبان خاموش رہی تا وقت یہ کہ خواجہ غلام فرید جو سرائکی زبان کے امام اور شعراء ہیں نئے سرائکی زبان کو الفاظ تراکیب تلمیحات استعارات اور اشارات کا بے بہا خزانہ عطا کیا خواجہ صاحب کا مقام سرائکی زبان میں وہی ہے جو اردو میں امیر اور غالب کا مقام ہے خواجہ صاحب نے پہلی بار سرائی کی کو ہمہ گیریت عطا کی اور اج تک خواجہ صاحب کی زبان میں پرانا پن نہیں ایا انہوں نے جن تراکیب سے اظہار بیان کو سنوارا ہے وہ جوں کی تو باقی رہی اس لیے کہ ان الفاظ و ترقی میں اس قدر سادگی ہے کہ زمانے کے نشیب و فراز زبان کے چہرے پر جھریاں نہیں ڈال سکے پھر نو روز کا زمانہ ایا تو زبان نے جشن نوروز منایا نوروز کے ہاں بھی ندرت بیان اور جدت ادا پائی جاتی ہے لیکن نوروز کی تقلید کوئی نہ کر سکا نتیجہ یہ ہے کہ زبان پھر عجیب قسم کے مرحلوں سے گزرنے لگی اب خرم بہاول پوری کی باری تھی استاد خرم واقعی سرائکی کے مسلم الثبوت استاد واقع ہوئے خرم کا مطالعہ گہرا تھا اس لیے استاد خرم کو اپنا معافی الضمیر ادا کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں ائی اور وہ بڑھتے پھیلتے دریائے تخیل کی روانی کو الفاظ و معنی کے کوزے میں سمیٹتا ہوا جھومتا چلا گیا استاد خرم کے ہاں جدیدیت کے بے شمار نمونے ملتے ہیں اور یقین ہے کہ خرم کی زبان ائندہ کئی سالوں تک بوڑھی نہیں ہو سکے گی۔
     اب جانباز جتوئی، غلام حیدر خان یتیم اور نور محمد سائل کا زمانہ ہے جانباز جتوئی نے زبان کو نئے مضامین دیے جانباز سے پہلے سرائکی میں انقلابی شاعری کا نشان بہت کم ملتا ہے صرف مذہبی کتابچوں میں امام علی شاہ دبیر پنجاب سائیں سید علی شاہ صاحب اور دوسرے سرکردہ شورا کے علاوہ ارشاد عباسی کی رضمی یا شاعری ضرور باقی ہے لیکن معاشرے میں دولت کی بھیجا تقسیم اور زمانے کی ستم ظریفیوں کے خلاف کوئی خاص احتجاج کسی نے بھی نہ کیا یہ جاں باز کے ذہن رسا کا کام تھا اور اس نے اسے خوب نبھایا جانباز کی شاعری میں زندگی اپنے تمام تر رانائیوں کے باوجود موجود ہے جانباز کی شاعری جوش و اضطراب کا ایسا ٹھاٹ ہے مارتا ہوا سمندر ہے جو اپنے ساتھ بے شمار کمزوریوں کو بہائے لیے جا رہا ہے جہاں بعض نے زبان کو جو کچھ دیا اس کی وجہ سے بلا تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جانباز سرائکی کا نمائندہ شاعر ہے اس کی انفرادیت کا قائل ہونا پڑتا ہے اس لیے کہ انہوں نے اپنے لیے سرائکی کو منتخب کیا انہوں نے سرائیکی کی خدمت کی ہے وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے کسی دوسری زبان کے الفاظ کا سہارا نہیں لیتے بلکہ انہوں نے بہت پرانے اور مردہ الفاظ سرائکی زبان کے کو اپنے کلام میں اس طرح مربوط کیا ہے کہ وہ الفاظ پھر سے جی اٹھے ان میں زندگی کی لہر دوڑ گئی جانباز سرائکی زبان کا مسیحہ ہے جانباز نے سرائی کی میں ایسی روح پھونکی ہے جو سرائے کی بلکہ لڑ کھڑا تی ہوئی سرائکی کو زندہ سے زندہ تر اور پائندہ سے پائندہ تر بنا گئی۔
         جناب غلام حیدر خان یتیم جنہیں فردوسی ملتان کا خطاب دیا گیا ہے مجھے ان کی شاعری میں عمومی گہرائی اور وسعت کے علاوہ ایک خاصیت اسے زیادہ دیر تک زندہ رہنے میں مدد دے گی وہ خاصیت ہے کہ دوسرے شعراء کی روش سے ہٹ کر عام موضوعات کو اپنانا یعنی جو مزہ خواجہ حسن نظامی کی نسل میں ہے وہی یتیم کی نظم میں ہے یتیم صاحب کی نظر فلک بوس موضوعات پر نہیں پڑتی بلکہ وہ اپنی زمین اور اپنے ارد گرد کے ماحول کی عکاسی کرتی ہے مثلا اس کی نظموں میں شاہین بس تباخی میلاد اور شکار نامہ یا قصیدے عام نظر اتے ہیں یتیم صاحب کے اندر بڑی صلاحیتیں ہیں کاش وہ اپنی شاعری کو انقلابی خیالات میں ڈھال سکتے یتیم صاحب کے متعلق ابو البیان میر حسان الحیدری نے کہا ہے کہ بقول حسن نظامی چاکلیٹ سے خدا تک کے موضوعات پر رباعیات کہیں اس میں مبالغہ نہیں مگر موجودہ دور کے تقاضے کچھ اور ہیں۔
           میں نے ابھی ابھی جانباز کا ذکر کیا ہے کہ جانباز انقلابی جذبات کا شاعر ہے مگر مجھے ہی یہ کہنے میں کوئی باپ نہیں کہ جانباز نے جیسے انقلابی عمارت کی بنیاد ڈالی ہے اس کی تکمیل سرور کربلائی نے اپنے مجتہد ذہن سے کی سرور اج کے ان گنے چنے شعرا میں سے ہے جنہوں نے زبان کو بے حد وسعت دی ہے اور یہی اس کا اجتہاد ہے سرور کربلائی نے زبان کو بالکل نیا پیرہن عطا کیا بالکل نئے الفاظ دیے اور یکسر نئی تراکیب سے زبان کی نوک پلک سنوارنے کا بیڑا اٹھایا اور اج سرائیکی جو کچھ ہے اس میں کربلائی کا بہت بڑا حصہ ہے 

ایویں کبک دری رفتار دے وچ میڈا سوہنڑا سئیں ٹر چلے جیویں ناز دے وچ شہباز کرے پرواز فلک پر کھلے پئے طور دے نور کوں بھل ونجن جے لڑ رخسار توں چلے کیا طاقت سرور حسن زمن ایندے پاسنگ وچ آ تلے

     سرور سے پہلے سرائیکی شاعری میں تشبیہات، استعارات اور کنائیوں کا دائرہ نہایت محدود تھا اور وہ بھی یوں کہ اساتذہ نے جن تشبیہوں کا سہارا لیا تو سالہا سال تک وہی تشبیہ ہیں کسی سکہ رائج الوقت کی طرح مستعمل رہی اور کوئی بھی ایسا شاعر نہ ایا جس نے کچھ نئی تشبیہوں سے شاعری کی زلف کو تابناکی بخشی ہو۔ نتیجہ یہ کہ نئی نسل کے لیے ان تشبیہوں میں کوئی کشش ہی نہ رہی۔ کیونکہ ہر بات اتنی اہم نہیں ہوتی کہ اسے دہرایا جائے، محبوب کے چہرے کو چاند یا پھول سے تشبیہ دینا ایک عام سی بات ہو کر رہ گئی، محبوب کی رفتار کو قیامت اور انکھوں کو مستی سے تشبیہ دینا ایک رواج سا بن گیا ہے جہاں تک میرے مطالعہ کا تعلق ہے کوئی بھی مثال ایسی نہیں ملتی جو میرے اس دعوے کو جھٹلا سکے۔ اب دیکھیے سرور کربلائی نے روائت سے کس طرح  صحت مند بغاوت کی ہے میں میں یہاں اس کی ناظم "چاندنی رات" پیش کر رہا ہوں تشبیہات ملاحظہ فرمائیے انداز بیاں دیکھیے اسلوب نگارش کا اندازہ لگائیے اور آمدوآورد کا فرق بھی دیکھیے۔
       "چاندنی رات "

اینویں ھے ستی ساری خدائی نندر وچالے میخوار جیویں پی کے نہ ول ہوش سنبھالے ساہ جھنڑیا ھے مخلوق دا ایں دور تے نا لے چپ چاپ سنے جیویں کوئی یار دا حال اے محبوب دی مستک تے جیویں ٹکہ دمکدے چن چوڈی دا اسمان تے اینویں پیا چمکتے

      رات کا وقت ہے کائنات یوں نیند کے گہرے سمندر میں ڈوب چکی ہے جیسے کوئی سیاہ مست شرابی بے انتہا شراب پی کر ہوش سے بے نیاز ہو جاتا ہے مخلوق خواہ وہ دور رہتی ہے یا نزدیک اس طرح چپ چاپ ہے جیسے اس نے اپنی سانس روکی رکھی ہو اور کائنات کی یہ خاموش فضا کچھ ایسا روپ دھار چکی ہے جیسے کوئی دیوانہ اپنے محبوب کا حال سننے میں غرق ہو اسمان پر چاند یوں چمک رہا ہے جیسے کسی دوشیزہ کے ماتھے پر جھومر دمکتا ہے

چاندن ہے یا ھے نور تے مستی دا سمندر سانون دی چھٹی رات تے ایں حال دے اندر ونڑ ونڑ ہے بنڑیا مستی توں سر مست قلندر وچ تاریں دے دربار دے چن ڈسدے سکندر چوگرد اینویں چندر دے تارے نہیں ماندے جیویں جو نویں پرنی دے گل ہار پھلاندے

   یہ چاند ہے یا نور اور مستی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے، ساون کی یہ البیلی اور نشینی رات اف، میری توبہ! ہر ایک پودا مستی میں یوں جھوم رہا ہے جیسے قلندری مسند کا شہزادہ ہو اور چاند ستاروں کے جھرمٹ میں ایک سکندر کی حیثیت رکھتا ہے!
  چاند کے گرد ستاروں کا یہ جھرمٹ یوں لگ رہا ہے جیسے کسی دلہن کی مرمریں گردن میں پھولوں کے گجرے ہوں"
کئی ڈیندا مسافر ہے جیویں دل کوں دلاسے 

یا تاڑ کتھائیں پانڑی ٹرن تیز پیاسے رکھ ٹردا ہے عاشق جیویں دیدار دی آسے او بدلی مڑی ویندی ڈیکھو چندر دے پاسے ایں چندر دے چہرے اتے آئے بدلی دا سایہ محبوب جیویں شرم توں ہے منہ چا لکایا

 ایک اوارہ بادل کا ٹکڑا چاند کی طرف جا رہا ہے یوں لگتا ہے مسافر منزل کا نشان پا کر اپنے دل کو امیدیں دلا رہا ہو یا پھر کوئی پیاسا کہیں پانی کا سراغ ملنے پر تیز تیز چلنے لگا ہو اور اگر یوں بھی نہیں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی عاشق دیدار کی اس لگا کر چل رہا ہو اور اب بدلی چاند پر سایہ کر رہی ہے اور مجھے یوں لگتا ہے جیسے کسی دوشیزہ نے شرم و حجاب سے اپنا منہ چھپا لیا ہو"

وا عطر بھنی اینویں ودی مست تھی لرکے محبوب جینویں ویندیں ہوئیں ڈیکھ کے مرکے یا راز کئی غیریں توں لگا ڈھول آ کر کے شب وصل آلی شام جیویں ناز تے سر کے چوگوٹھ ایں خوشبوئیں دے ہبکار چھٹے ہن اج وال جیویں یار دے یکبار چھٹے ہن

   اب شاعر ہوا کی تعریف کرتا ہے ایتھر میں ڈوبی ہوئی ہوا یوں مستانہ وار چل رہی ہے جیسے کوئی دل ربا کسی عاشق سے جدا ہوتے وقت مڑ کے دیکھے اور مسکرا دے چاندنی رات کی ہوا کا انداز بھی کیا انداز ہے کہ یہ ہوا اور اس کے جھونکے کانوں سے یوں ٹکرا رہے ہیں جس طرح کوئی محبوب انتہائی لطیف رازدار دوسرے لوگوں سے چھپ چھپ کر اپنے عاشق کو بتا رہا ہو ہر طرف اس طرح خوشبو پھیل گئی ہے جیسے کسی محبوبہ نے اپنی دراز زلفیں ایک دم کھول دی ہوں"
 پنیال ھے یا ڈھول دی مستک دا پسینہ 

غنچہ ھے جیویں شاعر الہام دا سینہ ہر گل ھے میڈے یار دی صورت دا آئینہ گلشن ھے یا عاشق دی دعائیں دا مدینہ ہر خار میڈے یار دا انداز نظر دے گھاہ ڈیکھو تائیں کیڈا نظر باز نظر دے

    یہ شبنم کے قطرے ہیں، یا میرے محبوب کی پیشانی کا پسینہ ہے، جو باغ میں بکھر گیا ہے ہر غنچہ کسی شاعر الہام کا سینہ نظر اتا ہے، اور ہر نو  شگفتہ پھول میرے حبیب کی صورت کا ائینہ دار ہے، گویا مکمل باغ کسی عاشق جگر سوختہ کی دعاؤں کا شہر لگتا ہے، ہر ایک کانٹے میں مزاج یار کی کھٹک پائی جاتی ہے۔
       اس کے بعد شاعر نے نظم میں گریز کا بند کہا ہے۔

ہر فرد تھی ہر درد تو آزاد ستا ھے

کوئی قیدی جیویں قید تو چھٹ شاد ستا ھے
یا ساقی کئی میخواروں توں گھن داد ستا ھے 

میخانے دا مئے خانہ ھے آباد ستا ھے گھنڈ کھول لتھن حوراں اینجھا سیر دا وقت اے آ ڈھول میڈے کول ایہو خیر دا وقت اے

     " ہر فرد اس وقت ہر قسم کے آلام و مصائب سے بے نیاز ہو کر خواب استراحت کے مزے لے رہا ہے،  جس چہرے پر بھی نگاہ پڑی یوں لگتا ہے جیسے کوئی قیدی معیاد ختم کر کے ازادی کے مسرت افزون لمحوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے یا جیسے کوئی ساقی اپنے مئخواروں کی دعائیں لے کر تھکن سے چور ہو گیا ہو۔ یعنی کائنات ایک مئے خانہ لگتی ہے اور اس وقت پورے میخانے پر نیند کا سکوت چھایا ہوا ہے، اے میرے محبوب دیکھ اس وقت تو حوریں بھی گھونگھٹ کھول کر زمین پر سیر کرنے کی غرض سے اتر آئی ہیں،  تو بھی آ جا کے یہی خیر و برکت کے لمحے ہیں۔"
   ملاحظہ فرمایا اپ نے اسے کہتے ہیں تشبیہ اور اس کا استعمال سرور کربلائی سے پہلے اگر کسی شاعر نے سرائی کی میں ایسی ائی سی نادر تشبیہات زبان کو دی ہیں تو پیش کیجئے میں اپنے دعوے سے دستبردار ہو جانے کو تیار ہوں ورنہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ سرائیکی زبان کا ایک مجتہد شاعر ہے سرائی کی شاعری میں سرور نے سر زبان کو جدت عطا نہیں کی بلکہ حسن فنی طور سے بھی اس بے ماہ زبان کو بہت کچھ دیا ہے اب تک سرائی کی شاعری صرف بند کافی مسدس اور بحر تک محدود تھی لیکن سرور نے سرائے کی قطع کی بنیاد رکھی سرائکی غزل کی بنیاد رکھی اور سرائکی نظم کے موضوع میں خوشگوار تبدیلیوں کے ایک نئے باب کا اضافہ کیا جس پر جدید سرائی کی شاعری کا قصر تعمیر ہو رہا ہے۔
       یہ ایک زبردست المیہ ہے کہ سرور کربلائی کی رفیقہ حیات صرف ایک دو سال کی رفاقت کے بعد اس سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی، سرور اپنی بیوی کی پرستش کرتا تھا اس نے اس کی موت پر چند قطعات کہے ہیں۔ یہ قطعات جہاں سرور کی شاعری میں ایک شاہکار ہیں، وہاں سرائیکی شاعری میں سنگ میل بھی ہیں ملاحظہ فرمائیے ایک قطعہ۔

میڈے گنج اے محبت دی۔ امیں ھے میڈا محبوب اتھ مسند نشیں ھے پچھے سرور کوئی آ کے میڈے دل کوں اے کیڈے شان دی مالک زمیں ھے

اس نظم کا دوسرا قطعہ۔

میڈے چرخ تخیل دی بلندی اینکوں چمدی ھے بس جھک جھک کراہیں فکر دے دیوتا ایں بارگاہ وچ ادب توں سر نہیں چیندے کڈاہیں

اے او راجے دا دربار ھے جیندیں جئیں میں جہیں کوں قلم دا راج بخشے تے جند اپنڑی دا ڈے ڈاتے نے فدیہ میکوں انسانیت دا تاج بخشے

مندرجہ ذیل قطعہ میں سرور کربلائی نے سرور کربلائی نے اپنی بیوی کا نام دلشاد اتنے حسین پیرائے میں استعمال کیا ہے۔

میڈا محسن تے مخلص انڑ چتائیں 

میکوں ہر غم کنوں آزاد کر گئے ڈے آپنڑا غم میڈے ناشاد دل کوں ہمیشاں کانڑ بس دلشاد کر گئے

اینویں رل گئے دا کیوں اج حال ہوندا ہنجوں میڈیں دا ایں رنگ لال ہوندا جیکر سرور حیاتی دے سفر وچ میڈا محرم مسافر نال ہوندا

      آخرین قطعہ اس نظم کا ملاحظہ فرمائیے رعایت لفظی اور حسن تعلیل کی انتہا ہو گئی ہے۔

اے ڈیوا نئیں سر مرقد عزیزو دل شاعر دے پئے ارمان جلدن اینویں ہس تانگھ جیویں کوئی مسافر سمجھ کھڑدے اجھوکے یار ولدن

سرور کربلائی نے سرائیکی شاعری کو نئے باپ دیے ہیں ان میں ایک قطع ہے قطع اردو زبان میں اس چار مصر والی نظم کو کہتے ہیں جس کے انہی چاروں مصروں میں کوئی خاص بات مکمل کہہ دی جائے خطا کی خوبی یہ ہے کہ اختصار کے ساتھ نہایت ظہردار انداز میں کوئی بات کہی جائے اور اگر قطع یا بند کا چوتھا مصر زوردار نہ ہو تو وہ قطع یا بند کوئی اہمیت نہیں رکھتا سرور نے اردو کی قطع کی اسٹائل اسی وزن کے ساتھ سرائکی میں داخل کر دی ہیں پہلے پہل تو اس کے اس اجتہاد کو بغاوت کا نام دیا گیا مگر اخر کار یہ سیلف اس قدر مقبول ہوئی کے اج ہر جدید شاعر اسے اپنا رہا ہے اور اس سلسلہ میں اقبال سوکڑی اقبال نصرت مہجور بخاری عزیز شاہد دلچسپ اور دوسرے شاعروں نے اس کی تقلید کی ہے مگر سرور کا قطع کہنے کا اپنا مخصوص انداز ہے دلیل کے لیے اس کے چند قطعات پیش کر دینا ہی کافی ہے۔

ہوس دے رنگ کولوں پاک تھی ونج
تے "میں" کوں مار کے بے باک تھی ونج 
جے دلڑی ھیں سجنڑ دا قرب چاہندی 

تاں من سرور دا آکھیا خاک تھی ونج

خرد تیڈے جنوں کوں خام کیتے تائیں ہر جا تیکوں بدنام کیتے جیڑھا کجھ مل ونجی بسم اللہ پی ونج ودھا نہ ہتھ کوں سرور جام کیتے

عطا ساقی دی بس چپ چاپ پی ونج سنڑانونڑ غیر کوں ہائے باپ پی ونج

اے سرور ہے بھرم ساقی سخی دا
لہو آپنڑے کوں ڈوہ کے، آپ پی ونج 

میت میڈے مقسوم دی جیوا ونج مسیحا! معجزہ کوئی ڈکھا ونج نزع دا وقت ہئی سرور تے جانی قضا تاں آ گئی ،ہنڑ توں وی آ ونج

عزیزیں وچ بناوٹ ھے ریا ھے محبت دی تجارت ھے دغا ھے بہوں مدت توں یاریں رل کے سرور جفا دا نام رکھیا چا وفا ھے

زمانے تے وفاداری گناہ ھے تیں یاریں نال اج یاری گناہ ھے خدا سونے دا سرور بنڑ گیا ھے شریفاں کانڑ ناداری گناہ ھے

جنوں دے رنگ آفاقی نی رہ گئے اوہے ساغر ،اوہے ساقی نی رہ گئے تہوں سرور پئے آپنڑا خون پیندوں شرابیں وچ نشے باقی نی رہ گئے

     سرور کا دوسرا احسان سرائیکی پر اس کی غزل ہے۔ جس طرح اردو قطعہ کی اسٹائل سرائیکی شاعری میں شامل کی ہے اسی طرح اردو غزل کا انداز بھی سرائیکی کو عطا کر دیا اور اس سرائیکی غزل میں بھی وہی سادگی، سلاست، روانی، شگفتگی اور وقار پایا جاتا ہے۔ جو ان کے مکمل کلام کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ غزل کہتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کسی شفاف آئینے کی تابدار سطح پر شبنمی موتی دھیرے دھیرے پھسل رہے ہوں، اس کی غزل میں بھی اس کی روح کے دکھ انتہائی حسین انداز میں مسکرا رہے ہیں۔

عشق آپنڑے کوں خام نئیں کرنڑا پیار جگ تے ملام نئیں کرنڑا سو ھے قسمت تیڈے اندھارے دی چڑھدے سجھ دا سلام نئیں کرنڑا

   چڑھتے سورج کا سلام کرنا سرائیکی میں بھی محاورے کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور سرور کے اس شعر میں اس محاورے کو جس خوبصورتی کے ساتھ نظم کیا گیا ہے اس کی مثال مجھے اردو میں بھی بہت کم ملتی ہے۔ اپنے مقدر کی تاریکی کو اتنا بلند اور ارفع و اعلی سمجھ کر اپنی خودداری اور فنکارانہ انا کی پرستش کرنا اور اسے اس انداز میں صرف ایک شعر میں کہہ ڈالنا سرور کی فنکارانہ صلاحیوں اور صلاحیتوں کا بین ثبوت ہے۔ اس غزل کے تیسرے شعر میں فنکار کا احساس پہلے سے زیادہ بیدار نظر اتا ہے۔

جے تائیں نہ طور تے آ بہوے نال اوندے کلام نئیں کرنڑا

     اپنی انا کا اس سے زیادہ ثبوت اور کیا دیا جا سکتا ہے کہ جب تک طور پر وہ (محبوب حقیقی) خود تشریف نہ لے آئے ہمیں کیا پڑی ہے کہ اس سے محو گفتگو ہوں۔

تیڈے مارے ہوئیں تاں قبراں وچ جندڑی جیوی آرام نئیں کرنڑا

خواجہ میر درد کا ایک شعر یہاں یاد آ رہا ہے۔

جان سے ہو گئے بدن خالی

جس طرف تو نے آن بھر دیکھا
   میر درد نے تصوف کو اپنایا اور سرور نے بھی! کتنی مماثلت ہے دونوں فنکاروں میں۔

فکر میڈے اے قسم کھادی ھے چندر وچ وی قیام نئیں کرنڑا

   دیکھیے تخیل کی بلندی کہ شاعر انسانی ارتقا کی کتنی خوبصورت مثال دے رہا ہے کہ میرے فیکٹ میں قسم کھا لی ہے کہ چاند پر پہنچ کر بھی قیام نہیں کرے گا بلکہ ستاروں سے اگے جہانوں کی تلاش میں سرگرداں رہے گا ایک اور حسین شعر ملاحظہ فرمائیے۔
دل کوں سجدے دا لطف نہیں آیا 

عقل کوں ول امام نہیں کرنڑا

        اس شعر کی تعریف و تشریح کے لیے الفاظ قطعا میرا ساتھ نہیں دے سکیں گے۔
سنڑ کے ملاں تو واعظ جنت دے 

مفت مسہ حرام نہیں کرنڑا

      سرائیکی زبان میں خوبصورت محاورہ ہے کہ "مسہ حرام کرنڑا" اردو میں رائج ہے کہ "مسح حرام کرنا" یعنی اپنی نیکیوں کو گناہوں کی نذر کر دینا، شاعر نے کتنا اچھا طنز کیا ہے کہ ریا کار مولوی کے وعظ میں الجھ کر اپنے بے ریا خلوص کا جنازہ نکالنا ہمیں منظور نہیں۔
              احمد ندیم قاسمی کا ایک شعر ہے۔
واعظ شہر کے نعروں سے تو کیا کھلتی انکھ  

اپنے ہی خواب کی جنت نے جگایا ہے مجھے

     سرور کربلائی نے اسی انداز کی بات کرنا چاہی مگر کچھ اور کہہ گئے۔
چنگا بندہ ہے اج توں سرور کوں
سارے جگ دا غلام نہیں کرنڑا
   ایک دوسری غزل کا صرف مطلع سن لیجئے کہ کتنا خوبصورت مطلع ہے۔ 

دلڑی دا سوا درد دے غم خوار نی کوئی یوسف ہاں مگر میڈا خریدار نی کوئی

    اس مطلع کا دوسرا مصرع انتہائی خوبصورت ہے، کہ، "یوسف ہاں مگر میڈا خریدار نی کوئی!"
         یہ اور اس قسم کی دوسری خصوصیات کو دیکھ کر قاری یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ سرور کربلائی سرائیکی کا انقلابی اور مجتہد شاعر ہے۔


    "سرور کی رزمیہ شاعری "


سرور کربلائی کو میں نے ایک مشاعرے میں سرائیکی زبان کا "جوش ملیح ابادی" کہا تھا۔ اور یہ خطاب میرے ضمیر نے اسے اس لیے دیا کہ وہ انتہائی انقلابی قسم کا شاعر ہے اس کے کلام میں رزمیہ شاعری کو ایک خاص انفرادیت حاصل ہے۔

        میں نے پہلے بھی کہیں ذکر کیا ہے کہ سرور کربلائی کا احساس ایک آتش فشاں کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب یہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے تو جہاں اس کی تہہ سے ارجمند موتی،  ہیرے، سونا، چاندی اور دیگر خوبصورت رعنائیاں برامد ہوتی ہیں وہاں، آگ بھی پھیلتی ہے۔ زمین کا سینہ بھی شق ہوتا ہے۔ اور زمین پر بنے ہوئے تمام تاج محل زمین بوس ہو کر اسی لاوے، اور ابلتے ہوئے امڈتے ہوئے لاوے کی تہہ میں غرق ہو جاتے ہیں سرور کی طبیعت شبنمی سہی، مگر اس کا احساس شعلوں کا لہراتا ہوا پرچم ہے۔ اس کا ایک قع ملاحظہ فرمائیے۔
تھر تھراندا شباب آندا پئے
حسن پی کے شراب آندا پئے
پگھرو پانڑی ہے وقت دی مستک 

اے جیڈا انقلاب آندا پئے

دوسرا قطع سنیے! کیا بات ہے۔
عشق پھر پھر کے دار تائیں پج گئے
درد ودھدا اقرار تائیں پچ گئے
میکوں مصریں دی خیر نہیں  ڈسدی حسن یوسف بازار تائیں پج گئے
سرور کی رزمیہ شاعری کا انداز اردو میں جوش سے ملتا ہے، اور سرائیکی میں یہ انداز جانباز جتوئی ارشاد عباسی سے تطابق کرتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ اپنی انفرادیت کو قائم کیے ہوئے ہے۔ اس ضمن میں سرور کی ایک نظم "پاک سپاہی دا رجز" اس کے جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے۔ اگر صفحات اجازت دیتے تو میں مکمل رجز لکھتا اور اسی انداز میں تشریح کرنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اب مجبورا" صرف چند بند لکھنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔

کیا تاب تواں کہیں دی ساڈے نال کھڑاوے

ہتھ آن چڑی نال جو بازاں دے گڈاوے کوئی شیر دی کچھار دو اک وار تاں اوے کمبخت شقی ازلی کو ول کون بچاوے
ہر دشمن دیں کیتے اساں قہر خدا ہیں 

آ تیکوں ڈساوں جو اساں کون ہیں کیا ہیں

سر کٹ گئے مگر غیر اگوں جھکیا نی ساڈا
طوفان بلا دنیا کنوں رکیا نہیں ساڈا کوئی وار نشانے کنوں چکیا نی ساڈا
دم موت دی منزل تے وی مکیا نی ساڈا
کھا نان جویں حارث عنتر کو پچھاڑے 

دنیا دے تکبر کو جتی ہیٹ لتاڑے

        اسی طویل نظم کا ایک بند یہ بھی ہے۔
آ وقت گئے آپنڑے توں انجام کو ڈیکھیں خواہ صبح کوں ڈیکھیں تے بھاویں شام کو ڈیکھیں
منہ اپنڑے اتے موت والے جام کوں ڈیکھیں
دلی دے اتے پرچم اسلام کو ڈیکھیں کشمیر دی تاں گالھ ہے بس تھوڑے ڈیہاں دی
کرنڑی ہے حکومت تاں اساں سارے جہاں دی 
        مجاہد سے مخاطب ہو کر سرور کہتا ہے۔
حقیقت دا حقیقی راز توں ہیں
زمانے دی بنا آغاز توں ہیں
ہے جئیں مخلوق تیں خالق وی نازاں مجاہد او سراپا ناز توں ہیں
   اردو میں قطعے کا ترجمہ بالکل اسی انداز میں ملاحظہ فرمائیے۔
حقیقت کا حقیقی راز تو ہے!
جہان نے فکر کا آغاز تو ہے!
جس تخلیق پہ خالق بھی نازاں!

مجاہد وہ سراپا ناز تو ہے!

    دو چار قطعات بمع ترجمہ دیکھیے۔
تیڈا پرچم ہلالی توں حلالی
تیڈی تخلیق ہے جگ توں نرالی
زمانہ ہے اجل جیکوں سڈیندا
تیڈےے چہرے دا ہے رنگ حلالی
   ترجمہ اردو میں!
تیرا پرچم ہلالی تو حلالی
تیری تخلیق ہے جگ سے نرالی 

زمانے نے کہا جس کو قیامت

تیرے چہرے کا ہے رنگ حلالی 


ازل دے ڈینہہ کنوں ہر آن ڈردن زمانے دے شہ و سلطان ڈردن

تیڈی ہیبت کنوں منہ فق فلک دا
تیڈی ٹھوکر کنوں طوفان ڈردن


(سید محسن نقوی کا یہ اردو مضمون 1969 میں سرائیکی ماہنامہ "اختر" میں شائع ہوا تھا۔)

نمونہ کلام[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

ھے لوڑ سر نوک سناں عشق ذرا بول ..

چودھار ھے چپ تار

توں ھک وار ولا بول ..

مقتول دی کئی چیک

نہ قاتل دا ٹھکارا

کیا تھی گئی مقتل دی سنجی آب, ھوا بول ..

بہوں ݙھیر ݙتن اونکوں خراج اوندی جفا دے

اج کھڑ کے اوندے سامنے 

بےسوبھ وفا بول ..

اے حسن ازل گول تیݙی رول ݙتا ھے

قوسین دی پازیب الا

رنگ حنا بول ..

میں کلہاں میکوں لکھاں خدا ویڑھ گئے ھن

کیا حکم ء میݙے نال میݙا کلہا خدا بول ..

اے عیسی! نفس ݙیکھ تیݙے بعد اساکوں

نئیں بھاناں قبر وچ وی فرشتے دا الا بول .

غزل[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

تلوار دو ہتھ تیر دو گل بھیج ݙیویجے ،

قاتل کوں اوندی کرنی دا پھل بھیج ݙیویجے ،

ݙیکھوں تاں سہی کون کیڑھے پانی دے وچ ھے

سانون دو کئ سہکدا تھل بھیج ݙیویجے ،

آسمان توں احسان وانگوں رزق جے لہندے

احسان کوں آسمان دو ول بھیج ݙیویجے ،

او ݙیکھنڑا چاہندا ھے میݙے بھانڑ پرانے

پلکیں دی عماری دا محل بھیج ݙیوییجے ،

ایں عید تے سرکار تیݙو عید دا تحفہ 

ہنج بھیج ݙیوییجے یا غزل بھیج ݙیویجے ،

آئے آس دی آیت تیݙے آرام دے کیتے

دل آھدا ھے باہیں دا رحل بھیج ݙیویجے ،

کئ سر ھے نہ پتھر ھے نہ مخلوق دے کٹھ ءن

سرور کوں تیݙے شہر دو ول بھیج ݙیویجے 

سرور کربلائی دےچند اشعار :۔۔۔۔۔۔۔[لکھو | ماخذ وچ تبدیلی کرو]

یوسف نسے ہر شخص خریدن کوں نہ اُلرے۔۔۔۔!

وِکدے ہیں تاں وِک ویندے ہاں بے دام اساں لوک

جیڑھے دیوانہ ساکوں سݙیندن اوہے پیمبر ساکوں منیسن

جڈاں شرافت دی رسم چلسی جڈاں محبت رواج بنڑسی

میڈا سرور ہے نسب نامہ ، غریب ابنِ غریب۔۔۔۔۔

میں کہیں خود ساختہ شجرے دی پیدا وار نہیں

میں کلہاں میکوں لکھاں خُدا ویڑھ گۓ ہِن۔۔۔۔۔۔

کیا حُکم اے، میڋے نال میڈا کلہا خُداٻول۔۔۔۔۔!